کورونا کیسوں میں اضافہ تشویشناک

   

کورونا کیسوں میں اضافہ تشویشناک
ہندوستانی معیشت نریندر مودی حکومت میں کورونا کے بغیر بھی دیوالیہ ہورہی تھی ۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں لاک ڈاؤن لگائے جانے کے بعد معیشت کی ارتھی اٹھنے لگی ۔ اس صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے ملک کے کئی ریاستوں میں ریڈ زون ، آرینج زون یا گرین زون کے فتے لگا کر علاقوں کو تقسیم کردیا گیا ۔ ملک میں وباء کے دن چل رہے ہیں ۔ لوگوں کے لیے معاشی پریشانی سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ حکومت نے کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں مریضوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود لاک ڈاون پر سختی سے عمل کیا اور اندرون ملک پروازوں اور ریلوے بس سرویس کو معطل کردیا ۔ اب کورونا وائرس کے کیسوں میں دن بہ دن اضافہ کے باوجود ملک کی معیشت کو سنبھالنے کی فکر کے ساتھ حکومت نے ٹرین ، فضائی اور بس سرویس کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ خاص کر فضائی سرویس کے ذریعہ شہری ہوا بازی شعبہ کو تباہی سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن پیر 25 مئی سے فضائی سرویس شروع کرنے کے انتظامات کے بعد پہلے ہی دن کئی پروازیں منسوخ کردی گئیں ۔ مسافروں کو پریشان کردیا گیا ۔ ریاستی حکومتوں کی مرضی معلوم کئے بغیر فضائی سرویس کا آغاز مرکزی حکومت کے لیے شدید دھکہ ثابت ہوا ۔ نتیجہ میں پہلے ہی دن 630 پروازوں کو منسوخ کردیا گیا ۔ تقریبا تمام بڑے ایرپورٹس پر افراتفری مچ گئی ۔ کئی ریاستوں نے لاک ڈاؤن میں مزید دو ماہ کی توسیع کی تجویز پیش کی ہے خاص کر حکومت مہاراشٹرا نے فضائی ، ٹرین اور بس سرویس معطل رکھنے پر زور دیا ہے ۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ مہاراشٹرا متاثر ہے جہاں دن بہ دن اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ ریاستی حکومتوں نے فضائی سرویس کے ذریعہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اندیشہ ظاہر کیا اور مسافرین کے کورنٹائن کی مدت کو لازمی قرار دیا تو مسافرین حیران و پریشان ہوگئے ہیں ۔ ایک ریاست سے دوسری ریاست کو پرواز کرنا اور 14 دن کی کورنٹائن کی شرط ایک نئی مصیبت سے کم نہیں ہے ۔ ایر لائنس نے تمام ریاستوں سے مشاورت کے بغیر ہی اندرون ملک پروازوں کا فیصلہ کر کے مسافروں کو خاص کر دوسری ریاستوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اپنی منزل تک پہونچنے کی سہولت فراہم کی تھی لیکن اچانک پروازوں کی منسوخی کا اعلان ان مسافروں کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہوا ۔ حکومت اپنے فیصلوں کے ذریعہ عوام کو ناحق پریشانیوں سے دوچار کررہی ہے ۔ احتیاطی اقدامات کرنا ضروری ہیں لیکن غلط فیصلے اور عجلت بازی میں کئے جانے والے اقدامات تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں ۔ دہلی کے ایرپورٹ کے بعد ممبئی کا ایرپورٹ ملک کا سب سے بڑا ایرپورٹ ہے جہاں ابتدائی طور پر روزانہ 175 پروازوں کے مسافرین کے سفری انتظامات سے نمٹنے کی تیاری کی گئی تھی لیکن یہاں پہلے ہی دن 50 پروازیں منسوخ کردی گئیں اور دوسرے دن مزید 25 پروازوں کو منسوخ کردیا گیا ۔ اچانک منسوخی کے فیصلے دور دراز سے آنے والے مسافرین کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ۔ جب ملک میں کورونا وائرس کے کیسوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے اور اب یہ تعداد 50 لاکھ تک پہونچ گئی ہے تو عوام کی نقل وحرکت کو کھولدینے کا مطلب یہی ہے کہ اس حکومت کے پاس کوئی لائحہ عمل اور منصوبہ نہیں ہے ۔ دہلی میں ہی کورونا وائرس کی صورتحال سنگین بتائی جاتی ہے پھر بھی چیف منسٹر کجریوال نے صورتحال کو قابو میں ہونے کا دعویٰ کیا اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ بحران زدہ نہ ہوں ۔ کورونا وائرس کے بحران کے پیش نظر مرکز سے لے کر ریاستی حکومتوں کے پاس کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں ہے تو احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو مزید مشکل میں ڈالنے والے فیصلوں سے گریز کیا جائے ۔ جب حکومت ہی اپنے اصولوں اور لاک ڈاون کے شرائط کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے تو عوام کو درپیش مسائل سے کس طرح چھٹکارا دلائے گی ۔ عوام کو کم از کم اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ وائرس کے خاتمہ کے لیے احتیاط کے دامن کو ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ہے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ حکومت تھک چکی ہے ۔ اس لیے کورونا کے خلاف احتیاطی اقدامات پر عمل درآمد میں لاپرواہی کررہی ہے ۔ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ ہی سارے ملک میں کورونا وائرس کے کیسوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔۔