کونسا قانون؟ کس کا حکم؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

دستور ہند دو سال سے زائد عرصہ تک تشکیل پاتا رہا اور پھر 26 جنوری 1950 کو نافذ العمل کیا گیا۔ ہمارا آئین دراصل دستور ساز اسمبلی کی مشترکہ دانشمندی اور کوشوں کا نتیجہ تھا اور یہ ملک کے لئے ایک واجبی دستور تھا اگرچہ پوری طرح ہندوستان عوام کا نمائندہ نہیں تھا۔ مقبول عام تصور یہی ہیکہ آئین کی روح بابا صاحب امبیڈکر سے منسوب ہے۔ آپ کو بتادیں کہ انڈین پیانل کوڈ (آئی پی سی) دراصل ہندوستان کے فوجداری قوانین کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور آئی پی سی 1860 میں انگریز سامراج کی حکمرانی کے دوران بتایا گیا۔ اس نے انگریزوں کے متعارف کروائے گئے ڈھیر سارے بنیادی قوانین اور دستور ہند کی آزمائش یا امتحان میں کامیابی حاصل کی اور اس کی خوبی یہ ہیکہ یہ بہت سے تبدیلیوں و ترامیم سے بھی محفوظ رہا جہاں تک Companion laws کا تعلق ہے وہ انڈین ایوی ڈنٹ ایکٹ 1872 اور ضابطہ فواجداری ذریعہ 1973 ہیں۔ یہ تینوں قوانین مرکزی مجلس مقننہ ؍ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کئے گئے تھے اور ریاستی مقننہ کے اس میں اضافہ یا پھر ترمیم کی جاسکتی ہے۔
لا اینڈ آرڈر کیا ہے؟
دستور کے تحت فوجداری قانون اور فوجداری عمل کے مضامین کو ساتویں شیڈول، فہرست سوم متوازی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ تاہم عوامی نظم کا مضمون جس میں امن و ضبط بھی شامل ہے اسے فہرست دوم ریاستی فہرست کے تحت الاٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح عوامی نظم کے ایگزیکٹیو پاورس یعنی عمل آوری کے اختیارات بھی ریاستی حکومت کو تفویض کئے گئے یا ریاستوں کے ذمے کئے گئے (دفعہ 152) اس قسم کے اختیارات قانون کے نفاذ سے متعلق فرض کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں جس کا مطلب قوانین کا اطلاق، قوانین کے استحصال کو روکنا مشتبہ عناصر کا پتہ چلاکر انہیں پکڑنا، تحقیقات کرنا، قانونی کارروائی کرنا، ملزمین کو قانون کے ذریعہ کیفر کردار تک پہنچانا اور انہیں سزا دلانا ہے۔ یعنی نظم و ضبط و قانون کے مطابق مذکورہ چیزوں کو یقینی بناتا ہے لیکن ملک میں حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ہیں ان واقعات نے یہ شبہ پیدا کیا ہے کہ شاید ’’امن و امان‘‘ کے فقرہ کا اچھی طرح استعمال نہیں کیا گیا۔ یعنی اس فقرہ کے معنی و مطلب غلط اخذ کرتے ہوئے اسے استعمال کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قانون اب مدون کردہ قانون نہیں رہا بلکہ یہ قانون ایسا ہے جیسے قانون نافذ کرنے والوں نے سمجھا اور اس کا اطلاق کیا۔ یعنی قانون نافذ کرنے والوں نے قانون کو جس طرح سمجھا اور اس کا اطلاق کیا دوسروں کے لئے بھی اسے ماننا پڑا جہاں تک ’’آرڈر‘‘ کا سوال ہے آرڈرکا مطلب اب کوئی قانونی حکم نہیں ہے لیکن اس میں ایسے افراد کی جانب سے جاری کردہ زبانی یا غیر زبانی ہدایات شامل ہیں جنہوں نے اختیارات صوابدید حاصل کرلئے ہیں یعنی اپنی مرضی و منشا کے مطابق جو چاہیں کریں۔ جب بھی امن و امان کا مطالبہ کیا جاتا ہے میں پوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ آخر کون سا قانون اور کس کا حکم ۔
عالمی اصول : ۔ جہاں تک قانون کا سوال ہے اس کی بنیاد عالمی قانونی و اخلاقی اصولوں پر ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر اور خاص طور پر جمہوری ملکوں میں قانون میں درج ذیل کے مفروضات کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہے۔
٭ ہر شخص کو اس وقت تک بے قصور تصور کیا جاتا ہے جب تک عدالت میں وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔
٭ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا شخصی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ سوائے قانون کے ذریعہ وضع کردہ طریقہ کار کے (دفعہ 21)
٭ فوجداری قانون ایک تحریری قانون ہے اس میں جرائم سے نمٹنے والے قوانین، مقدمات کا رجسٹریشن (اندراج)، تحقیقات، قانونی کارروائی، مقدمات کی سماعت اور اس کے لئے سزاء کے طریقہ کار کو ترتیب دینے والے قوانین شامل ہیں۔
٭ ملزم کے خلاف مجاز دائرہ احتیار کی حامل کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔
٭ ملزم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دفاع کرے اپنا مقدمہ شخصی طور پر یا وکیل کے ذریعہ پیش کرے۔
٭ پراسیکیوٹر عدالت کا ایک آفیسر ہے اور اسے تمام مواد کو منصفانہ انداز میں ظاہر کرنا چاہئے چاہے وہ تحقیقاتی ایجنسی کے حق میں ہو یا ملزم کے حق میں پراسیکیوٹر کو منصفانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔
٭ صرف جج کو ہی اس امر کے تعین کا اختیار ہیکہ آیا ملزم نے جرم کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں اور اگر ملزم جرم کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اس کے لئے سزا صادر کی جائے گی اور سزا کے تعین اور اس کے صادر کرنے کا اختیار جج کو حاصل ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان عالمی اصول و قواعد پر عمل نہ کیا جائے تو کیا ایسے ملک کو قانون کی حکمرانی والا ملک کہا جاسکتا ہے؟ واضح رہے کہ دنیا کے کچھ ملک اس عالمی نظام کی پیروی کرتے ہیں آپ مجھے فرد دکھائیں میں آپ کو اصول و قواعد دکھاؤں گا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں قانون کی حکمرانی ندارد ہے لیکن یہ دعویٰ ضرور کیا جاتا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ کافی ہے۔ اس نظام کے تحت قانون، مختلف افراد کے لئے مختلف ہے۔ مختلف مقدمات کے لئے مختلف ہے یہاں تک کہ دن بہ دن اس کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ خود قانون کی حکمرانی اور قانون کے ذریعہ حکمرانی میں فرق واضح ہے۔ اس کے باوجود بڑی تیزی کے ساتھ یہ فرق یا تو جان بوجھ کر محسوس نہیں کیا جاتا ہے یا اسے مٹایا جارہا ہے اور ایسے احکامات کے ذریعہ جو قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرسکتے ہیں یا قانونی احکامات کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں۔ قانون کا غلط انداز میں نفاذ کرنے والے بہت سارے عہدہ داران ایڈلف ایچ مین کے اس جواز کو اپناتے ہیں کہ حکم ہی حکم ہے۔
استثنیٰ کی کارروائیاں
قانونی فلفسہ بہت ہوچکا آئیے کڑوی حقیقت اور کڑوے سچ کا سامنا کریں۔
٭ پہلو خان کون تھا وہ دودھ فروش ایک ڈیری کسان تھا۔ جو جانوروں کے ایک بازار سے جانور خرید کر لے جارہا تھا، اسے جئے پور؍ دہلی قومی شاہراہ پر گاؤ رکھشکوں نے روکا اور حملہ کا نشانہ بنایا اس حملہ کو ویڈیو کیمرہ میں قید کرلیا گیا، گاؤ رکھشکوں نے اسے اس قدر شدید زدوکوب کیا کہ اسپتال میں زخموں سے جانبر نہ ہوسکا۔ پہلو خان قتل کے دو سال بعد اس کے چھ مجرمین کو شک کا فاندہ دیتے ہوئے بری کردیا گیا۔ ملزمین کی برأت کے چند منٹوں میں ہی ان کے حامیوں نے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ جیسا نعرہ بلند کرنے لگے۔
٭ دوسری طرف اوڈیشہ، اترپردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات اور کرناٹک وغیرہ میں عیسائی گرجا گھروں اور دعائیہ اجتماعات پر 300 سے زائد حملوں کے واقعات پیش آئے۔ یہ بات اے این آئی جیسی خبررساں ایجنسی نے بتائی اور کہا کہ اترپردیش میں قانون انسداد تبدیلی مذہب 2020 کے بعد 507 افراد پر مذہب تبدیل کروانے کے الزامات عائد کئے گئے لیکن اب تک کوئی خاطی قرار نہیں پایا۔
٭ مسلم مردوں پر ہندو لڑکیوں و خواتین کو اپنے پیار کے جھانسے میں پھنسانے اور ان سے شادیاں کرنے کے الزامات عائد کئے گئے اور جان بوجھ کر اس قسم کے جھوٹے و فرضی واقعات کو ’’لو جہاد‘‘ کا نام دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہندو لڑکیوں و خواتین سے عشق کی شادی کرنے والے مسلم مردوں کے خلاف کئی ریاستوں میں مقدمات درج کئے گئے چنانچہ فروری 2020 میں ایم او ایس (ہوم) (مملکتی وزیر داخلہ) نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ قانون کے تحت لو جہاد کی تشریح و توضیح نہیں کی گئی اور کسی بھی مرکزی ایجنسی نے اس قسم کے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں دی۔ ڈسمبر 2012 میں وشوا ہندو پریشد نے خود ساختہ لو جہاد کے 400 واقعات کی ایک فہرست جاری کی۔
٭ جاریہ سال 26 مارچ کو عتیق احمد نے جن پر جرائم کے بے شمار الزامات تھے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے چیختے چلاتے ہوئے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اسے انکاؤنٹر میں مار دیا جائے گا۔ چنانچہ 16 اپریل کو عتیق احمد، ان کے بھائی اشرف احمد کا پولیس کی حراست میں الہ آباد (پریاگ راج) کے ایک اسپتال کے باہر قتل کردیا گیا۔ حملہ آوروں نے عتیق احمد اور اشرف احمد پر اندھا دھند فائرنگ کے بعد جئے شری رام کے نعرہ بلند کئے اپنے اپنے پستول پھینک دیئے اور خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل ہی عتیق کے فرزند اسد احمد کا پولیس نے انکاؤنٹر کردیا۔ موقر انگریزی روزنامہ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق یوپی کے عہدہ چیف منسٹری پر یوگی آدتیہ ناتھ کے فائز ہونے کے بعد یہ 183 واں انکاؤنٹر تھا۔ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ خدا نے انصاف کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس قانون نے اس قسم کے قتلوں کی اجازت دی ہے۔ اور آخر کس کے حکم پر ان لوگوں کو قتل کیا گیا؟ یا گرجا گھروں پر حملہ کئے گئے یا جوڑوں پر مقدمات درج کئے گئے اور قانون کی حکمرانی کے بگاڑ میں بھارت ماتا، رام جی اور خدا کو کیوں لایا جاتا ہے؟