کووڈ۔19 اور ہڈی کا گلنا

   

ڈاکٹر عابد علی خان
ڈاکٹر مظہر الدین علی خان
پروفیسر آرتھوپیڈکس اویسی ہاسپٹل
ہمارا ملک بمشکل کورونا کی دوسری لہر کے تباہ کن اثرات سے ابھرا اور پھر جلد ہی خود کو کورونا کے مابعد اثرات کی گرفت میں پایا۔ ہم پھر ایک اور تشویش میں مبتلا کرنے والی کووڈ۔ 19 کی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور تشویش میں مبتلا کرنے و الی وہ صورتحال بون ڈیتھ (ہڈی کا گلنا) ہے۔ یہ عارضہ ہڈیوں کے امراض کا علاج کرنے والے ماہرین کے معاشرہ یا آرتھوپیڈک سوسائٹی کی گہری تشویش و فکرمندی کا باعث بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ
Bone Death
کو طبی طور پر
Avascularnecrosis (AVN)
کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسے ہم بے رگ ہڈی کا گل جانا بھی کہہ سکتے ہیں۔
AVN
ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہڈی کو خون کی سربراہی گھٹ جاتی ہے یا اس میں کمی آتی ہے جس کے نتیجہ میں مائیکرو فریکچر (چھوٹا فریکچر) پیدا ہوجاتا ہے، اگر اس کا علاج نہ کیا جائے، ویسے ہی چھوڑ دیا جائے تو پھر نقل و حرکت کے عمل میں شامل جوڑ عملاً کام کرنا بند کردیتاہے۔
جہاں تک
AVN
کیسیس کا تعلق ہے، یہ مرص ان لوگوں میں بڑی تیزی سے پیدا ہورہا ہے جو حالیہ عرصہ کے دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور صحت یاب ہوئے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ
Mucormycosis Epidemic
(بلیک فنگس) کی وباء کی طرح کووڈ۔ 19 کی ایک پیچیدگی ہے۔ طبی برادری کا اندازہ ہے کہ آنے والے کچھ ماہ میں یہ تعداد نہ صرف بزرگ لوگوں کو متاثر کرے گی بلکہ کم عمر و نوجوان آبادی بالخصوص ان مریضوں کو بہت زیادہ متاثر کرے گی جنہیں علاج کے دوران بہت زیادہ
Steroids
دیئے گئے تھے یا جنہوں نے اسٹرائیڈس استعمال کئے تھے۔
اس
AVN
میں اضافہ کی ایک اہم وجہ بڑے پیمانے پر اسٹرائیڈس پر مبنی ادویات کا استعمال ہے جو مہلک کووڈ۔ 19 علاج کیلئے ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ان ادویات کے بہت زیادہ ذیلی اثرات بھی ہیں جیسے فنگل انفیکشن، ذیابیطس، اے وی این اور بہت سارے۔ مختلف جائزوں میں یہ بات سامنے آئی کہ مابعد کووڈ۔ 19 علاج کے 50-60 دن بعد مریضوں میں
AVN
ظاہر ہوا ہے یا اس کی شروعات ہوئی ہے جو موجودہ لٹریچر کے مقابل بہت پہلے یا جلد ہوتا ہے۔ یہ لٹریچر بتاتا ہے کہ
AVN
کا فروغ اسٹرائیڈ کے استعمال کے بعد 6 ماہ تا ایک سال کے درمیان ہوتا ہے۔
AVN
کی یہ ابتدائی سیٹنگ اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ ابتدائی فروغ میں حصہ ادا کرنے والے اسٹرائیڈس کے علاوہ جسم پر
Thromboembolic Effect
(شریانوں میں جمے ہوئے خون سے علیحدہ ہوکر خون کی نالی میں گردش خون کو روکنے کا عمل یا شریانوں میں خون کا جم جانا) کووڈ۔ 19 کے مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ ساتھ ہی اس میں پھیپھڑوں کی
Capillaries
(خون کی باریک باریک رگوں)اور دماغ پر اثر پڑتا ہے پھر ہڈی بھی ااس کی زد میں آجاتی ہے۔
آگے چلتے ہیں
Ficat Classification
یا فیکاٹ درجہ بندی کی طرف دراصل یہ ایسا سسٹم ہے جو ہڈیوں کے امراض کے ماہرین
AVN
کی تشخیص کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس درجہ بندی کا مرحلہ 1 مرض کے شروعاتی مرحلہ سے مطابقت رکھتا ہے جس کا صرف
MRI
کے ذریعہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے یا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ آگے کے مرحلوں میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہڈیوں کا جوڑ تباہ ہوگیا ہے اور اس کا پتہ
MRI
کے ذریعہ لگایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ایکسرے ریڈیو گرام کے ذریعہ بھی اس نقص کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ مرحلہ چار کا آخری یا قطعی مرحلہ ہڈی کے جوڑ کی مکمل تباہی کا باعث بنتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ
Ficat System
میں تشخیص کیلئے
MRI
اور ایکسرے دونوں درکار ہوتے ہیں۔ اب یہ مرحلہ 1 اور مرحلہ 2 میں خاص طور پر بہت زیادہ اہم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر صرف ایکسرے لئے جائیں تو وہ پکڑ میں نہ آئے۔
AVN
کا اس کے ابتدائی مراحل میں پتہ چلانے کیلئے
MRI
بہت ضروری ہے۔
اس مرض کے ابتدائی مراحل میں مریضوں نے کولہوں، چڈھے اور کمر و پیٹھ میں مسلسل اور مبہم درد کی شکایت کی ہے۔ (عام طور پر کندھوں کے ساتھ کولہے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں) اس کیفیت یا درد کو نظرانداز کردیا جائے یا پھر علاج میں تاخیر کی جائے تو پھر اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں اور متاثرہ جوڑوں کے سیٹس میں شدید درد ہوتا ہے۔ متاثرہ مرد و خواتین صحیح طور پر چل نہیں سکتے، لنگڑا پن پیدا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے وہ اپاہج ہوجاتے ہیں جس سے طرز زندگی شدید متاثر ہوجاتی ہے اور پھر بیماری بڑھ جاتی ہے۔ بیماری کے بعد کے مرحلہ (مرحلہ 3 اور 4 فیکاٹ درجہ بندی) میں آپریشن لازمی ہوجاتا ہے۔ مریض کو کوڑ ڈی کمپریشن سرجری کی شکل میں ایک مہنگے آپریٹیو مینجمنٹ سے (آپریشن کے عمل) سے گزرنا پڑسکتا ہے، یا پھر ایسی صورت میں کولہے کے جوڑ کی تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔
جہاں تک علاج اور اس کے فوائد کا سوال ہے، اس بیماری کے جلد سے جلد اور ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص علاج کے بہتر نتائج کیلئے بہت اہم ہے۔ ابتدائی مرحلہ (فیکاٹ درجہ بندی کے مرحلہ 1 اور 2) میں اے وی این کا طبی طور پر بہتر علاج کرتے ہوئے بیماری کی طوالت کو اچھی طرح کم کیا جاسکتا ہے اور جوڑ کے افعال کو مکمل طور پر بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے عارضہ کے علاج کیلئے بس فاسفوینٹس ، اسٹاٹنس (کوالیسٹرال کو کم کرنے والے ایجنٹس اینوکساپارین ) خون کو پتلا کرنے والی) اور
Denosumab
انجیکشن استعمال میں ہیں۔
ابتدائی مرحلہ میں ہی مرض کی تشخیص اور فوری علاج بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور خاص طور پر ہندوستانی شہریوں کیلئے یہ بہت اہم ہے۔ اس لئے کہ ان میں کئی ہنوز معاشی دباؤ سے ابھر رہے ہیں اور مہنگے ترین آپریٹیو مینجمنٹ برداشت کرنے کے موقف میں نہیں۔
کووڈ۔ 19 سے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں تھکان ، سانس لینے میں تکلیف، دل کی دھڑکنوں کا تیز ہونا، پٹھوں میں درد اور جوڑوں میں درد جیسی کیفیات پائی جارہی ہیں اور اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ یقیناً
AVN
کی علامتوں اور شدت کے جوڑوں کے درد کو مرتکز کرنے کے معاملے کو نظرانداز کرتے ہیں۔ کووڈ۔ 19 سے روبہ صحت ہوئے مریضوں کیلئے ایک مشورہ یہ ہے کہ وہ کولہوں سے کندھوں تک اُٹھنے والے جوڑوں کے درد سے باخبر رہیں۔ اس کے علاوہ چلنے پھرنے اور وزن اٹھانے کے دوران درد سے بھی ہشیار رہیں۔ اس قسم کے درد کو ہرگز ہرگز نظرانداز نہ کریں اور ایسے درد کو ہرگز نظرانداز نہ کریں جو کم نہیں ہورہا ہو۔ اس قسم کے مریض ہڈیوں کے امراض کے ماہرین سے ضرور رجوع ہوں۔ ان سے مشاورت کریں اور جلد سے جلد
MRI
کروائیں تاکہ پتہ چلاکہ کہیں آپ
AVN
سے متاثر تو نہیں ہیں۔٭