کووڈ ۔ 19 سے نئے ہندوستان کا جنم

   

راج دیپ سر دیسائی
کووڈ ۔ 19 کی وجہ سے طویل لاک ڈاون کے نتیجہ میں تخلیقی نظریات کا سلسلہ رک گیا ہے۔ مجھے اس سے ایک شاعرانہ لائسنس مل گیا چنانچہ جاریہ ہفتہ میں نے نوبل انعام یافتہ ربیندر ناتھ ٹائیگور کی ایک نظم نئے ہندوستان کی تخلیق تحریر کی جو کورونا وائرس کے دور کا نتیجہ ہے۔ جہاں قوانین کا نفاذ خوف سے نہیں ہو رہا ہے بلکہ معلومات کی بناء پر ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اجتماعی طور پر کام کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں۔ جہاں آمرانہ رجحانات کی جگہ جمہوری اتفاق رائے نے لے لی ہے جہاں مہارت کی قدر معمول کے خوشامد سے زیادہ ہے۔
ملک گیر لاک ڈاون کی منصوبہ بندی شدید مشاورت کے بعد کی گئی اور چار گھنٹوں کی مہلت کے بعد اسے نافذ نہیں کیا گیا جبکہ چند ارکان پارلیمنٹ نے ماسک پہنے اور ایوان کی کارروائی ملتوی کردی گئی۔ صدر نشین نے ان سے ماسک نکالنے کی خواہش نہیں کی جہاں صحت کے ہنگامی حالات کے موضوع پر اپوزیشن نے حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کی۔

معیاری صحت مراکز کو ترجیح دی جاتی ہے اور مجسموں اور عمارتوں کو نہیں جہاں فرضی جنگیں عبادت گاہوں کے بارے میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ ایک متنازعہ اراضی کسی اسکول یا دواخانہ کے قیام کے لئے عطیہ دے دینے کے مطالبے نہیں کئے جاتے۔ جہاں ڈاکٹرس صرف کورونا وائرس مجاہدین کہلاتے ہیں بلکہ ان کا کبھی اتنا احترام نہیں ہوا تھا، جہاں دیئے جلاکر ان کا احترام کیا جاتا ہے اور تالی یا تھالی بجائی جاتی ہے۔ فضائی مشقوں کی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی بلکہ صحت کارکنوں کو بہتر حالات فراہم کرنے اور معیاری شخصی تحفظ کے آلات فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے جہاں جونیر ڈاکٹرس زیادہ تنخواہ کے لئے احتجاج کرتے ہیں اور نہ پولیس تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ ان پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران حملے کئے جارہے ہیں۔

جو بنیادی منتقلی خدمات مزدوروں کے لئے فراہم کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے آبائی دیہات واپس پہنچ سکیں مرکز بہ مقابلہ ریاست جنگ ریاست بہ مقابلہ ریاست میں شریک نہیں ہیں۔ انہیں اجازت دی جائے کہ وہ بین ریاستی سرحدات بلا رکاوٹ پار کرسکیں۔ یوپی جانے والی ٹرین کو اڈیشہ میں روکا نہ جائے اور ایک ریلوے پٹری قائم کی جائے جس پر بے دردی سے نعشوں کو کچلا نہ جاتا ہو اور بھوکے ابنائے وطن کی نعشوں کو کچلا نہ جائے۔
ایک کمسن لڑکی سائیکل پر 1200 کیلو میٹر کا سفر کرتی ہے تاکہ اپنے زخمی باپ کو مکان تک پہنچا سکے اس کی امکانی اولمپک ذرائع ابلاغ میں کامیاب قرار نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی تعریف کی جاتی ہے بلکہ ایک سنگین یاددہانی سمجھا جاتا ہے جو مایوس غربت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور صبر و تحمل کی آزمائش ثابت ہوتی ہے۔ جہاں سماجی دوری ایک اونچے طبقے کے لوگوں کی سہولت ہے بلکہ یہ ایک ایسا اختیار ہے جو تمام شہریوں کو دستیاب ہو۔ جہاں 50 افراد ایک بیت الخلاء استعمال نہ کرتے ہوں اور 12 افراد ایک ہی کمرہ میں سوتے ہوں کیونکہ غیر شادی شدہ افراد پر مشتمل خاندان ایک کثیر منزلہ فلک بوس شاندار عمارتوں میں رہتا ہے جہاں عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ ملک کو ایک عوام کی فلاح و بہبود سے دلچسپی رکھنے والی مملکت سمجھا جاتا ہو اس طرح کم قیمت پر مکانات فراہم کرنے والی حقیقی مملکت کا درجہ ہندوستان کو حاصل ہوسکتا ہے۔ ان مکانوں میں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئے جہاں دھاراوی کی جھونپڑ پٹی کو ایشیا کی وسیع ترین جھونپڑ پٹی کے طور پر دیکھا نہ جاتا ہو بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہو کہ شہر میں کتنا عدم توازن طرز زندگی میں پایا جاتا ہے۔ لاکھوں افراد ایسی جھونپڑ پٹیوں میں ہی حقیقی طور پر مساوی سمجھے جاسکتے ہیں۔ جہاں ایک مخصوص فرقہ کے افراد کو جو ختنہ کرواتا ہے زہریلے روابط رکھنے والا نہ سمجھا جائے۔ مختلف مذاہب کے درمیان کوئی فرق نہ کیا جائے کیونکہ وائرس صرف تنگ نظر سیاست دانوں کا ایجنڈہ نہیں ہے۔ ترکاری فروشوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک مخصوص مذہبی شناخت رکھتے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ اپنی خبروں میں حساسیت پیدا نہیں کرتے جو نسل یا ٹی وی کی ریٹنگ پاور پر منحصر نہ ہو اور نہ اشتعال انگیزی کرے، کسی مخصوص طبقہ کو وائرس کے پھیلاو کا ذمہ دار نہ قرار دیا جائے اور نہ دیگر طبقات سے دشمنی رکھی جائے۔

جہاں وباء ذات پات اور طبقات کے حدود سے بالا تر پھیلتی ہے امداد باہمی تنظیم یا مقامی فلاح و بہبود کی تنظیمیں خانگی جاگیر نہیں بن جاتیں جہاں گھریلو ملازموں کو کورونا وائرس پھیلانے والے سمجھا جاتا ہو یا انہیں ان کی اجرتوں سے محروم کردیا جاتا ہو اور انہیں گھر کی عمارت کے داخلے کے دروازے میں بھی پہنچنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
جہاں پر حقائق پر مبنی صبح ہوتی ہو کیونکہ یہ وائرس جھونپڑ پٹیوں تک نہیں پہنچتا اور نہ فضائی سفر کرنے والے اونچے طبقہ کو اس کی اجازت دیتی ہے۔ جہاں ہمیں یہ یاد رہتا ہے کہ نیٹ فلکس اور زوم لاک ڈاون کا راستہ ہیں غریبوں کو اب بھی اپنی روزانہ آمدنی کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جہاں کمپنیاں فراخدلی سے وزیر اعظم کیرس فنڈ میں اپنی امداد دیتی ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اپنے اطراف و اکناف رہنے والے افراد کی امداد کریں۔ جہاں حکومت کے راحت رسانی فنڈس کے اعلیٰ سطحی عوامی جانچ کے دائرے میں شامل کئے جاتے ہوں نوکریوں میں کمی کو اسثنیٰ دیا جاتا ہے یہ کوئی قانون نہیں ہے اور ہمدردی کا جذبہ تجارت کے جذبہ پر فوقیت رکھنے والا ہونا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ بڑے پیمانے پر تحریک دینے والے امدادی پروگرام پیش کرے جو اس بات کو یقینی بنائیں کہ راست نقد رقم کی امداد بیشتر مخدوش افراد تک پہنچے۔ جہاں ہم بحران کے واپس ہونے کے مواقع کو اصلاحی اقدامات کرتے ہوئے روک دیتے ہوں لیکن اصلاح کرنے والوں کو اصلاح کے جوش میں ایک بار پھر اقربا پروری کے جذبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اصلاحی اقدامات مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائے جائیں۔ صرف اچھی طرح نیٹ ورک رکھنے والی صنعت کے لئے نہیں۔ جہاں ہم ایک خود انحصار ہندوستان تعمیر کریں۔ صرف پرکشش نعرے کافی نہیں ہیں اور نہ یہ حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہمارے قانون ساز افراط سے ہیں لیکن ان کی وفاداری بیرونی ممالک کے ساتھ ہے یا پھر وہ ترک وطن کرکے بیرونی ممالک کی استعمال کی ہوئی دستی گھڑیاں فخر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ وہ ڈیزائنرس کے چشمے پہنتے ہیں اور پرتعیش موٹروں میں گھومتے ہیں۔ یہ بھی ان کے طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ حقیقی آزادی کی جنت نہیں ہے جہاں ہمارا ملک بیدار ہونا چاہتا ہے۔