کھرگون تشدد: کرفیو میں2گھنٹے نرمی‘خوفزدہ مسلمان علاقہ چھوڑنے پر مجبور

   

بھوپال:رام نومی کے موقع پر ہندوتوا بریگیڈ کی طرف سے پیدا کیے گئے فرقہ وارانہ تشدد نے مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد سے متاثر اور خوفزدہ ہزاروں مقامی مسلمان نقل مکانی کو مجبور ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے قریبی مساجد میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک مقامی کارکن نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے ساتھ جو ویڈیو شیئر کی، اس میں مسلمانوں کو مسجد کے فرش پر لیٹا دکھایا گیا ہے۔کھر گون کے ضلع ہیڈ کوارٹر میں آج کرفیو میں 2گھنٹے نرمی کی گئی۔پولیس کے مطابق سنگباری اور تشدد کے سلسلہ میں 35مقدمات درج کئے گئے اور121افراد کوگرفتار کیا گیا۔‘‘تشدد کے سبب علاقے سے بھاگ کر اپنی جان بچانے والوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا، لیکن کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک تقریباً 1000 مسلمان محفوظ مقامات کی تلاش میں علاقے کو چھوڑ چکے ہیں۔ کانگریس کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ’’علاقے کے کچھ خوفزدہ مسلمانوں نے اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لی ہے، کچھ لوگ مسجدوں کے اندر رہنے کو مجبور ہیں۔ کانگریس قائد کا کہناہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے مکانات اور املاک کو بلڈوز سے گرا دیا گیا ہے۔ تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کھرگون سے مسلمانوں کی ہجرت پر جب مدھیہ پردیش پولیس سے سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔ پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’صرف ان گھروں کو بلڈوزر سے گرایا گیا ہے جو سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے تھے۔ہمیں تصادم کے بارے میں خبریں ملی تھیں۔ احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے ہم نے رام نومی ریلی کے منتظمین سے کہا کہ وہ تنگ گلیوں سے نہ گزریں، لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سنی۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’پتھراؤ اس وقت شروع ہوا جب رام نومی کے منتظمین کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے اور مسلم خواتین سے متعلق نازیبا اور قابل اعتراض گانے بجائے گئے۔‘