کیا، رام مندر بی جے پی کو 400 سے زائد حلقوں میں کامیابی دلائے گی

   

امیتابھ تیواری
ایودھیا میں بالآخر رام مندر کا افتتاح ہوہی گیا۔ بی جے پی نے سارے ملک میں پران پرتشٹھا کے بارے میں اس قدر زیادہ تشہیر کی کہ شائد اب اسے 2024 کے عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی کیلئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس مذہبی تقریب کا مرکزی کردار رہے جبکہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ان کے بازو دیکھے گئے( سائیڈ ہیرو کی طرح ) مودی کے ہاتھوں رام مندر میں رام للا کی 51 انچ قد والی مورتی نصب کی گئی جو قیمتی زیورات سے مزین تھی اور مورتی کے گلے میں پھول مالائیں بھی چڑھائی گئیں۔ ایک طرف تو رام مندر کا افتتاح ہوگیا ہے دوسری طرف اس تقریب کے ساتھ ہی بی جے پی کے حامیوں اور اس کی انتخابی حکمت عملی طئے کرنے والوں کا یہ احساس ہے کہ بی جے پی نے کئی دہوں بلکہ صدیوں سے کئے جارہے ایک بڑے مطالبہ کی تکمیل کردی اور جس سے ملک کے کونے کونے میں بی جے پی کے حق میں لہر پیدا ہوگئی، ویسے بھی شمالی ہند یا ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی کو ووٹ دینے والے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جبکہ اس مرتبہ اسے جنوبی ہند میں اچھی خاصی تعداد میں لوک سبھا نشستیں حاصل ہونے کی اُمید ہے ( حالانکہ حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی کو جنوبی ہند کی اہم ریاست کرناٹک میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ کرناٹک میں لوک سبھا کی 28 نشستیں ہیں جن میں سے فی الوقت 25 پر بی جے پی نے قبضہ کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس، جے ڈی ایس کو ایک، ایک جبکہ ایک حلقہ میں آزاد امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی تھی، اسی طرح تلنکگانہ میں بھی جہاں کی 17 نشستوں میں سے 4 پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی تھی اب کانگریس کی حکومت ہے، ایسے میں اس مرتبہ ان دونوں ریاستوں میں اس کی پارلیمانی نشستوں میں کمی آسکتی ہے) بہر حال بی جے پی کے حامیوں اور انتخابی حکمت سازوں کو اُمید ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی 400 سے زائد پارلیمانی نشستیں حاصل کرے گی اور اس کا ووٹ شیئر جو 37 فیصد کے آس پاس ہے بڑھ کر 50 فیصد ہوجائے گا۔
بی جے پی نے 50 فیصد ووٹ شیئر اور400 سے زائد حلقوں میں کامیابی کا جو ہدف رکھا ہے وہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ ملک میں اب تک کسی بھی پارٹی نے 400 حلقوں میں کامیابی کے ساتھ 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کئے، ہاں صرف 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو 414 نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور اس کا ووٹ شیئر 48.1 فیصد تھا۔ کئی سیاسی مبصرین ، تجزیہ نگاریہاں تک کہ چند اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کو ہنوز شمالی ہندکی ایک سیاسی جماعت تصور کرتے ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے، 2019 کے عام انتخابات میں ملک کی سرفہرست 8 ریاستوں میں سے بی جے پی نے 223 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ، اس طرح اس کے 303 نشستوں میں 223 نشستیں صرف 8 ریاستوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان 8 ریاستوں میں سے بی جے پی نے شمال کی 3 ریاستوں میں مشرق کی دو ریاستوں ایک مغربی ریاست ، ایک جنوبی ریاست میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان ریاستوں کے بارے میں آپ کو مزید تفصیلی طور پر بتانا چاہوں گا، اُتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں کے 80 پارلیمانی حلقوں میں سے 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے 62 حلقو ں میں کامیابی حاصل کی۔ مدھیہ پردیش سے 28 ، گجرات سے 26 ، کرناٹک سے 25، راجھستان سے 24، مہاراشٹرا سے 23 ، مغربی بنگال سے 18 اور بہار سے 17حلقوں میں کامیابی حاصل کی ۔ اس طرح بی جے پی کی 2019 میں حاصل کردہ جملہ 303 نشستوں میں سے مذکورہ ریاستوں پر اس نے دو تہائی نشستیں حاصل کی۔ بی جے پی نے شمال مشرقی ریاستوں کی 25 پارلیمانی نشستوں میں سے بھی 14 نشستیں حاصل کی۔ واضح رہے کہ ہندی پٹی کی 225نشستوں میں سے بی جے پی کو 178 پر کامیابی ملی تھی۔ یو پی میں اس نے 80 میں سے 62 پر کامیابی حاصل کی اس وقت اُسے سماج وادی پارٹی ۔ بی ایس پی۔ راشٹریہ لوک دل پر مشتمل اتحاد کا سامنا کرنا پڑا لیکن 2019 کے بعد سے یہ اتحاد پوری طرح کمزور پڑچکا ہے۔
ETG کے حالیہ اوپنین پول میں بتایا گیا کہ اس مرتبہ یوپی میں بی جے پی کی موجودہ نشستوں میں کم از کم 8 تا 12 نشستوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے وہاں بی جے پی کا 2019 میں نتیش کمار کی جنتا دل ( یو ) سے اتحاد تھا، اسی اتحاد کے نتیجہ میں اس نے 17 حلقوں میں مقابلہ کیا اور تمام پر کامیابی حاصل کی ۔ بعد میں نتیش کمار کی پارٹی نے بی جے پی سے اتحاد ختم کرلیا ۔ اب توقع کی جارہی ہے کہ بی جے پی ریاست بہار میں 30 سے زائد نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔ ETG اوپنین پول میں بتایا گیا ہے کہ اس مرتبہ بہار میں بی جے پی کی موجودہ 17 نشستوں میں 5 تا7 نشستوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رام۔ مایا ماحول مخالف حکومت، مخالف ارکان پارلیمان لہر کو ختم کردے گا یا بے اثر کردے گا کیونکہ دیکھا جائے تو بیروزگاری اور مہنگائی کے نتیجہ میں مرکزی حکومت کے خلاف عوامی لہر پائی جاتی ہے (لیکن اپوزیشن INDIA اتحاد بنانے کے باوجود بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کی کامیابی میں اپوزیشن کے آپسی اختلافات اور انتشار کا اہم کردار ہے ) جس سے ہندی پٹی کی دوسری ریاستوں راجھستان ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ، دہلی، ہریانہ، اُتر کھنڈ اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کے 2019 کی بہ نسبت بہتر مظاہرہ کرنے کی توقع ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی 2019 کے عام انتخابات میں 72 حلقوں میں دوسرے مقام پر رہی ان حلقوں میں سے کانگریس نے15 ، بی ایس پی نے 10، سماج وادی پارٹی نے 5، بی جے ڈی نے 11 اور دیگر نے 10 حلقوںمیں کامیابی حاصل کی۔ یہ 72 نشستیں آسام میں(1)، چھتیس گڑھ میں (2)، گوا میں (7) ، جھار کھنڈ میں (2)، کرناٹک (2) ، منی پور میں ایک، کیرالہ میں ایک، مہاراشٹرا میں (2) ، مدھیہ پردیش میں ایک ، اوڈیشہ میں (11)، پنجاب میں ایک، تاملناڈو میں (5) ، تلنگانہ میں (2)، یو پی میں (16)، مرکزی زیر انتظام علاقوں میں (2) اور مغربی بنگال میں (12) ہیں۔ اس مرتبہ بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ یو پی میں ہوسکتا ہے۔ جہاں بی ایس پی انڈیا بلاک میں شامل نہیں ہے اگرچہ 400 سے زائد نشستوں کا ہدف بی جے پی کیلئے مشکل ہے شائد لیکن کمزور اپوزیشن اتحاد اور رام مندر کی افتتاحی تقریب نے اسے آسان کردیا ہے۔