کیا بی جے پی کی ہیٹ ٹرک ہوگی

   

امیتابھ تیواری
بی جے پی نے 44 برسوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد موجودہ مقام حاصل کیا ۔ بی جے پی قائدین اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ 44 برسوں کی بے تکان محنت کے نتیجہ میں ان کی پارٹی ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں اسے ملک کی ایک سب سے بڑی اور انتہائی مضبوط سیاسی قوت تسلیم کیا گیا اور وہ فی الوقت ایک ناقابل تسخیر سیاسی طاقت بن گئی ہے ۔ ہم بات کررہے ہیں حکمراں بی جے پی کی 44 ویں سالگرہ کی اور اس کے یوم تاسیس کا عنوان ’’ پھر ایک بار مودی سرکار ‘‘ رکھا گیا ۔ بی جے پی کے 44 سالہ سیاسی سفر میں اسے کئی ایک نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا اب دیکھنا یہ ہیکہ 2024 کے عام انتخابات میں اس کے کیا امکانات ہیں اور ان انتخابات میں وہ کتنی مضبوط و مستحکم ہوگی ۔ واضح رہے کہ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے کانگریس کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا اور اس کامیابی کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ عہدہ وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے نریندر مودی کو پیش کئے جانے سے ہی کامیابی یقینی بنی تھی اس وقت بی جے پی نے 543 پارلیمانی حلقوں میں سے 282 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ جادوائی عدد 272 کا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی نے سادہ اکثریت کیلئے درکار نشستوں سے 10 نشستیں زیادہ حاصل کی تھی ۔ ان عام انتخابات میں بی جے پی نے جملہ 31 فیصد ووٹ شیئر حاصل کیا تھا اور پھر 2019 کے عام انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 303 حلقوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ 2014 کی بہ نسبت اس کے ووٹ شیئر 31 فیصد میں 6 فیصد کا اضافہ ہوا یعنی 37 فیصد ووٹ اس نے حاصل کئے ( یہ اور بات ہیکہ اپوزیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری کے الزامات عائد کئے اور ان الزامات کو ہر بار الیکشن کمیشن آف انڈیا اور بی جے پی نے مسترد کردیا ) عام طور پر بی جے پی کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ شمالی ہند اور مغربی علاقہ میں مضبوط ہے جہاں سے اس نے بالترتیب 191 پارلیمانی حلقوں میں سے 155 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ( اس کا اسٹرائیک ریٹ 81 فیصد رہا ) اور 78 میں سے 51 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ( اس کا اسٹرائیک ریٹ 65 فیصد رہا ) بی جے پی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرقی اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس کا موقف کمزور ہے اس کے باوجود یہ بھی سچ ہیکہ تمام چاروں علاقوں میں بی جے پی واحد بڑی پارٹی ہے کیونکہ مشرقی اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں بے شمار علاقائی جماعتیں ہیں جو اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور رکھتی ہیں تاہم وہ ایک مشترکہ بیانر تلے متحد نہیں ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے ایسی 224 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن پر اس نے 50 فیصد ووٹ شیئر حاصل کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارٹی نے جملہ نشستوں میں سے 75 فیصد نشستوں پر شاندار کامیابی حاصل کی جبکہ دہلی ، اتراکھنڈ ، ہماچل پردیش اور گجرات میں بی جے پی نے تمام حلقوں میں 50 فیصد یا اس سے زائد ووٹ شیئر حاصل کیا جبکہ دیگر 6 ریاستوں بہار ، کرناٹک ، آسام ، راجستھان ، ہریانہ اور مدھیہ پردیش میں اس نے جن نشستوں پر کامیابی حاصل کی ان میں تین چوتھائی حلقوں میں نصف سے زائد ووٹ حاصل کئے ۔ اسی طرح ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش اور مہاراشٹرا میں بھی اس نے دو تہائی حلقوں میں اسی قسم کا مظاہرہ کیا جبکہ مغربی بنگال میں ایک چوتھائی نشستوں میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔ اوڈیشہ میں جہاں سہ رخی مقابلہ دیکھا گیا تھا کوئی ایسا حلقہ نہیں جہاں سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہوں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی نے 2019 میں جن 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ان میں سے 224 حلقوں میں بی جے پی نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے اور دلچسپی کی بات یہ ہیکہ 224 میں سے 153 حلقوں میں اس کی اصل حریف کانگریس تھی ۔ 2019 کے عام انتخابات میں جہاں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان 190 حلقوں میں راست مقابلہ رہا بی جے پی کو 175 پر اور کانگریس کو صرف 15 حلقوں میں کامیابی ملی ان 175 حلقوں میں سے 153 حلقے ایسے رہے جن میں بی جے پی نے نصف سے زیادہ ووٹ حاصل کئے دوسری طرف 185 حلقوں میں جہاں بی جے پی کا مقابلہ علاقائی جماعتوں سے رہا ، 128 حلقوں میں کامیابی اس کے حصہ میں آئی ۔ اس کے علاوہ ایسی 101 نشستیں جہاں بی جے پی امیدواروں کو 40 – 50 فیصد ووٹ حاصل ہوئے 79 نشستیں بی جے پی کے حق میں گئیں جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ 40 فیصد ووٹ شیئر ہمہ رخی مقابلہ میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے یعنی متعدد جماعتوں کے مقابلہ میں رہنے کے باوجود 40 فیصد ووٹ شیئر بی جے کی کامیابی کو قینی بناسکتا ہے ۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہیکہ بی جے پی نے 2014 اور 2019 کے عام انتخابات دونوں میں 247 نشستوں پر کامیابی حاصل کی یعنی 2014 میں بی جے پی نے جن 247 حلقوں میں کامیابی حاصل کی 2019 میں بھی ان حلقوں میں کامیابی حاصل کی ۔ تاریخی بنیادوں پر دیکھیں تو پچھلے تین انتخابات میں 95 نشستوں پر بی جے پی نے مسلسل کامیابی حاصل کی اور 167 ایسے حلقے ہیں جہاں سے پچھلے تین انتخابات میں دو مرتبہ بی جے پی امیدواروں کو کامیابی ملی ۔ ایسے میں اس مرتبہ بھی 262 حلقوں میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں جو جادوئی عدد 272 سے صرف 10 کم ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی 72 حلقوں میں دوسرے مقام پر رہی ان میں سے 17 ایسے حلقے تھے جن پر اس کے امیدواروں کو صرف 5 فیصد سے بھی کم اکثریت سے شکست ہوئی ۔ 2019 میں بی جے پی کو ان 35 حلقوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جو اس نے 2014 کے عام انتخابات میں جیتی تھی ان میں سے 20 حلقہ بی جے پی کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے اترپردیش اور بہار میں واقع ہیں اس مرتبہ بی جے پی نے کئی دوسری جماعتوں سے اتحاد کیا ۔ مثال کے طور پر کرناٹک میں جنتادل ایس ، آندھراپردیش میں تلگودیشم ، اترپردیش میں راشٹریہ لوک دل اور این سی پی ( اجیت پوار ) سے مہاراشٹرا میں اتحاد کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان چار ریاستوں کی 181 حلقوں میں بی جے پی کا موقف مضبوط دکھائی دیتا ہے لیکن آنے والا وقت ہی اس بارے میں درست پیش قیسای کرسکتا ہے۔