کیا تلنگانہ میں شرمیلا کے منصوبے کامیاب ہوں گے

   

گالی ناگراج
متحدہ آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی دُختر وائی ایس شرمیلا نے بلآخر پچھلے ہفتہ وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی (وائی ایس آر ٹی پی) کا آغاز کر ہی دیا جس کے ساتھ ہی تلنگانہ سیاست سے ان کے تعلق کے بارے میں سوالات اُٹھنے لگے۔ شرمیلا نے جو فیصلہ کیا، وہ اس لئے بھی حیرت انگیز ہے کہ کیونکہ ان کے بھائی وائی ایس جگن موہن ریڈی آندھرا پردیش کے موجودہ چیف منسٹر ہیں اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ماضی میں شرمیلا نے آندھرا پردیش میں اپنے بھائی کے حق میں مہم چلائی تھی، لیکن وہ کبھی بھی جگن کی پارٹی کی سرگرم رکن نہیں رہیں۔ شرمیلا کا خاندان بھی علاقہ آندھرا سے تعلق رکھتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ان کے آنجہانی والد ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی آندھرا پردیش کی تقسیم کے سخت مخالف تھے۔ شرمیلا کے تلنگانہ میں پارٹی شروع کرنے پر کئی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر شرمیلا نے تلنگانہ میں پارٹی کیوں قائم کی؟ تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) حکمراں جماعت ہے اور ریاست میں اسے دوسری جماعتوں پر غیرمعمولی برتری حاصل ہے۔ ٹی آر ایس نے انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ریاست میں کانگریس اور تلگو دیشم پارٹی کو کمزور کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران جو تبدیلیاں ریاست کی سیاست میں رونما ہوئیں، وہ اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ کانگریس اور ٹی ڈی پی نے جو خلا چھوڑی ہے، اسے دیگر پارٹیاں پُر کرسکتی ہیں۔

وائی ایس آر کی وراثت پر انحصار
شرمیلا کو ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے خلاف پائے جانے والے مخالف حکومت جذبات و احساسات سے فائدہ اٹھانے کی امید ہے اور اس کے لئے وہ اپنے آنجہانی والد کی وراثت سے مدد حاصل کرسکتی ہیں۔ ایسا ہی فارمولہ آندھرا پردیش میں وائی ایس جگن موہن ریڈی نے اپنایا اور اس کے عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوئے۔ آندھرا پردیش میں 2019ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران جگن موہن ریڈی نے تلگو دیشم پارٹی کو صرف اور صرف ’’راجنّا راجیم‘‘ کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار سے بے دخل کیا یا وائی ایس آر نے جس بہبودی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے جگن نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس لئے تلنگانہ میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب شرمیلا نے اپنی پارٹی کے تین مقاصد بہبود، مساوات اور خودانحصاری کا اعلان کیا اور سیاسی پنڈتوں کو یہ اشارہ دیا کہ وہ تلنگانہ میں ’’راجنّا راجیم‘‘ لانے میں سنجیدہ ہے۔ جہاں تک وائی ایس آر کی اسکیمات کا سوال ہے، ان کی بہبودی اور عوام میں مقبول اسکیمات نے یہ ثابت کردیا کہ وائی ایس آر کی وراثت کی مدد سے انتخابی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ راج شیکھر ریڈی سال 2009ء میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں چل بسے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے جو اسکیمات عوام کیلئے شروع کی تھیں، وہ آج بھی جاری و ساری ہیں۔

غیرمقامی ہونے کا لیبل
ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے علیحدہ تلنگانہ سے متعلق کے سی آر کے مطالبہ کی سخت مخالفت کی تھی اور متحدہ آندھرا پردیش کے کٹر حامی تھے۔ ان کے دور میں تلنگانہ تحریک دوبارہ شروع ہوچکی تھی، اس کے باوجود متحدہ آندھرا پردیش میں 2009ء کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو انہوں نے ہی کامیابی دلائی تھی۔ اُن انتخابات میں کانگریس نے علاقہ تلنگانہ میں شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 50 نشستوں پر کامیابی درج کی تھی جبکہ تلنگانہ تحریک چلانے والی ٹی آر ایس کو صرف 10 نشستوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا۔ جگن کو جس طرح کانگریسی قائدین کے شکار کا موقع ملا، تلنگانہ میں شرمیلا کو اسی طرح کا موقع ملنا مشکل ہوگا۔ چونکہ تلگو دیشم پارٹی کے کئی اہم قائدین پہلے ہی دوسری جماعتوں میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ ریاستی کانگریس اپنے نئے صدر ریونت ریڈی کی قیادت میں توقع ہے کہ پھر ایک بار متحرک ہوجائے گی اور اس میں ایک نئی جان پڑ جائے گی۔

شرمیلا کی پارٹی سے جگن کا اظہارِ لاتعلقی
ریاست کی مختلف سیاسی جماعتیں، شرمیلا کو جگن یا پھر کے سی آر کی ایجنٹ قرار دے رہی ہیں۔ اپنی پارٹی کا آغاز کرتے ہوئے شرمیلا تمام سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ اگر وہ اقتدار حاصل کرتی ہیں تو وہ اپنے بھائی اور چیف منسٹر آندھرا پردیش جگن سے کسی قسم کی مفاہمت یا مصالحت پر تلنگانہ ریاست کے مفادات کو اولین ترجیح دے گی۔ دوسری جانب وائی ایس آر کانگریس نے شرمیلا کی سیاسی جماعت سے اظہار لاتعلقی کیا ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹر نے جب شرمیلا سے پوچھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد جگن نے انہیں اہمیت کیوں نہیں دی؟ جس پر شرمیلا نے پرزور انداز میں اُلٹا سوال کیا کہ آپ کو یہ سوال جگن موہن ریڈی سے پوچھنا چاہئے۔