کیا ہم نے شہادتِ بابری مسجد سے کچھ سبق لیا؟ /تحریر: سید شعیب حسینی ندوی۔

   

یوں تو اس شہادت کو تیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اسکی کسک اور چبھن آج بھی ہندی مسلمانوں کے سینہ میں رہ رہ کر اٹھتی ہے، اور ہو بھی کیوں نہ، کہ سیکولر ملک میں برابری کی دعویداری اور سپریم کورٹ کی یقین دہانی کے باوجود وہ سیاہ دن اس ملک میں دیکھنا پڑا۔
آج اگر درد سے سینہ تنگ ہو تو بیجا نہیں جبکہ اسکی شہادت سے اٹھنے والا دھواں ابھی چھنٹا بھی نہ تھا کہ اسکی حیثیت عرفی کو ہی بدل ڈالا گیا، ستم بالائے ستم یہ سب اس دعوی کو توڑے بغیر ہوا کہ سب برابر کے شہری ہیں اور سب کے یکساں حقوق ہیں۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

یہ ساری ہیرا پھیری، سیاسی پینترا بازی اور قانونی داؤ پیچ کی لمبی داستان کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم کو یہ جاننے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اور ہمارا کل کیسا ہوگا؟
جہاں ایک طرف کروڑہا کروڑ روپیے پانی کی طرح محکموں میں بہا دیے لیکن خالی ہاتھ رہ گئی اور ہاتھ کچھ نہ لگا، تو دوسری طرف سب کھو کر اور لٹا کر برے کے برے ہی بنے رہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔

بلاشبہ اس مسجد کی بازیابی کی جد وجہد کرنے والے اور قربانیاں رقم کرنے والے قابل صد افتخار ہیں اور انکی کاوشیں لائق ستائش ہیں، البتہ پچیس تیس سال کی مہم جوئی اور اسکے لائحۂ عمل پر جب تاریخ کا قلمکار کاغذ سیاہ کرے گا تو تجزیہ وتنقید اسکا حق ہوگا اور نتیجہ میں وہ شاید حق شناس بھی، انسان کی کمزوری ہے کہ وہ حال پر قناعت اختیار کرلیتا ہے، جلد حاصل ہونے والے فائدہ پر نگاہ رکھتا ہے اور مستقبل سے نابلد ہوتا ہے، جبکہ قوم کو چلانے والا دماغ نتائج شناس اور حالات کی انگڑائیوں سے آئندہ کل کو بھانپ لینے والا ہونا چاہیے۔

ہم سے اس عرصہ میں کیا کمی کوتاہی رہی یا بالکل صحیح طریقۂ کار کو ہی ہم اپناتے رہے؟ اس تجزیہ کو کسی منصف مؤرخ کے حوالہ کرتے ہیں، لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور کل کیا ہونا ہے اسکو سمجھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ہم کسی گنتی میں نہیں گنے جب رہے، سیاسی دنیا میں ہماری حیثیت صفر ہے، سماجی طور پر ہم زدوکوب اور ذہنی تناؤ کی بدترین صورتحال سے گزر رہے ہیں، معاشی طور پر ہم اپنا وجود کسی نہ کسی حیثیت سے بچائے ہوئے ہیں یا یوں کہیے گزارا ہو رہا ہے اور گاڑی چل رہی ہے، میڈیا میں ہمارا وجود گالی بنا دیا گیا ہے، تعلیمی لحاظ سے بڑی پسماندگی سے دوچار ہیں، تنظیمی اعتبار سے بکھرے پتنگوں کی مانند ہیں۔
تمام تر زبوں حالی کے باوجود پہلے کے مقابلہ میں شعور کچھ جاگا ہے لیکن زمانہ کا رخ موڑنے والی آگہی ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے، حالات کے دھارے کو موڑنے کی انقلابی فکر ابھی زندہ نہیں ہوئی ہے، گنجلک راستوں میں سیدھی شاہراہ کھولنے کا ہنر نہیں آیا ہے، زمانہ کی نبض شناسی اور دوا دارو کا انتظام کرنا نہیں سیکھا ہے، فکر سازی اور فرد گری کے سونتے خشک پڑے ہیں اور ادارے بے دم ہو چکے ہیں۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات اور شوریدہ حالی میں کل کے مطلع پر گھنیرے بادلوں کے بسیرا نظر آتا ہے، صفحۂ زمین پر قفل زدہ دروازے دکھتے ہیں، امید کی کرن جلنے سے پہلے پھپھک کر بجھ جاتی ہے، دشت وجبل کی بازگشت شہر کے ہنگامہ داروگیر میں سنائی نہیں پڑتی۔
حالات کا مقابلہ کرنا ہے یا تاریخ کا دھارا بدلنا ہے تو لمبی ریس میں دوڑنا ہوگا، شورٹ کٹ وقتی تسلی کا سامان تو فراہم کرسکتا ہے لیکن نتیجہ خیر نہیں ثابت ہو سکتا، شورٹ کٹ سیاسی شطرنج میں بازی لگانا ہے اور بازار کی بولی مے اپنی قیمت سنانا ہے، لیکن لونگ روٹ (لمبی مسافت) سہ جہتی راستہ کو چننا ہے جس میں سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی کی ضمانت ہو۔

۱۔ ایک دوسرے کو سمجھ کر قریب لانے والے بین المذاہب برادرانہ تعلقات کو ہموار کرنا ہے، اخلاقی میدان میں اپنی برتری ثابت کرنا ہے، کھجور کی پیڑ کی مانند اپنے وجود کو منفعت بخش دکھانا ہے، آپسی روابط اور ملی ڈھانچہ مثالی کردار والا پیش کرنا ہے، ظاہر ہے اس کے لیے اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی طویل المیعاد عملی جہد مسلسل درکار ہے، خانقاہوں اور اصلاحی تحریکوں کو نئے رنگ وآہنگ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

۲۔ علم و آگہی کے لیے ہمہ گیر کاوش اور ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، دیہی علاقوں کا الگ پلان اور شہری علاقوں میں وہاں کے تقاضوں کے مطابق ادارے کھڑے کرنا ہے، ہر میدان میں ٹیم تیار کرنے کے لیے سائنسی اداروں کے ساتھ انتظامی وادارتی ٹریننگ کے لیے کالجز تیار کرنا ہے، آج کچھ بڑے شہروں میں مسلمانوں نے چند ادارے شروع کیے ہیں لیکن وہ انہی علاقوں کے لیے ناکافی ہیں چہ جائے کہ دیہی وضلعی سطح پر وہ نمائندہ ہو سکیں، دینی مکاتب ومدارس کا نظام بھی مساجد سے جوڑ کر چلایا جائے لیکن بڑے پیمانہ پر عصری اسکول و کالجز قائم کیے جائیں، اور جو ادارے ہیں انکے نظام کو مضبوط کیا جائے نیز علاقائی سطح پر مشاورتی رابطہ قائم کیا جائے تاکہ ایک دوسرے سے استفادہ کی راہیں کھلیں۔

۳۔ شمالی ہند میں کچھ کاروبار میں مسلمانوں کو اپنی معاشیات مضبوط کرنے کا موقعہ ملا ہے، اور جنوبی ہند میں بطور خاص گلف ممالک سے مال کی فراوانی حاصل ہوئی ہے، لیکن اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے یا نچلے متوسط طبقہ سے ہی تعلق رکھتا ہے، ضرورت ہے کہ نئے مواقع کھولے جائیں اور معاشی سرگرمیوں میں ہاتھ بنٹایا جائے، پلاننگ کے ساتھ مختلف طبقات کے امپاورمنٹ کی کوشش ہو، ہمارے ہاں رفاہی تنظیمیں خوب پیسہ لٹاتی ہیں لیکن اچھے روزگار پیدا کر کے نوجوانوں کو انکے پیروں پر بہت کم کھڑا کرتی ہیں، ہم غریب کو ثواب کی نیت کے بٹھا کر کھلاتے رہتے ہیں لیکن اس میں محنت کر کے کمانے کا شعور نہیں جگاتے اور راستہ نہیں بناتے، حالانکہ اصل مدنی ریاست کا معاشی تصور قوت بازو کا صحیح استعمال کر کے زیادہ یافت اور لابھ اٹھانا ہے۔

ان تین میدانوں میں اگر ہماری ملی، تعلیمی، اصلاحی اور رفاہی تنظیمیں مصروف عمل ہو جائیں اور تماتر وسائل اسی کاز میں جھونک دیں تو کچھ عرصہ کے بعد زبردست انقلاب آئے گا جس کو بڑے سے بڑا طوفان بھی روک نہیں سکے گا، آندھیوں کے تھپیڑے اسکا بال بیکا نہیں کر سکیں گے اور یہی پائیدار کامیابی ہوگی۔

تحریر: سید شعیب حسینی ندوی۔
مقیم منگلور، کرناٹک۔