کیا ہم پولیس اسٹیٹ ہیں؟

   

یہ دستور زباں بندی ہے کیساتیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
کیا ہم پولیس اسٹیٹ ہیں؟
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ۔ ہمیں دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور موثر جمہوریت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ اس ملک میںاختلاف رائے کا احترام یہاں کی روایت رہی ہے ۔ ہمارے سامنے ایسے بے شمار مثالیں موجود ہیں جب ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھنے والوں نے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک نظر قائم کی تھی ۔ ملک کی یہ قدیم روایت رہی ہے کہ اختلافات کرنے والوں کو قوم دشمن یا غدار نہیں کہا جاتا تھا بلکہ انہیں بھی ملک اور قوم کے ہمدرد اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے جدوجہد کرنے والوں ہی میںشمار کیا جاتا تھا ۔ یہ اختلاف رائے کے احترام ہی کا نتیجہ تھا کہ کانگریس دور حکومت میں بی جے پی کے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی کو ملک کی نمائندگی کیلئے بین الاقوامی فورمس میں روانہ کیا گیا تھا ۔ ان روایات کو ہندوستانی سماج کا بھی حصہ کہا جاتا ہے ۔ یہاں ایک دوسرے سے شدید اختلاف بلکہ تضاد رکھنے والے مذاہب بھی موجود ہیں لیکن ان کے ماننے والے آج بھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں حصہ داری بھی نبھاتے ہیں۔ لیکن حالیہ وقتوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ اختلافی آوازوں کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دینے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ برسر اقتدار پارٹی کے خلاف انتخابات میں مقابلہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے چاہے وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب چیف منسٹر ہی کیوں نہ ہو۔ حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے والوں کے خلاف جس طرح کے اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے یہ شبہات تقویت پا رہے ہیں کہ ہندوستان کو بتدریج ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ اس کی مثالیں گورکھپور کے ڈاکٹر کفیل کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ اور معروف شاعر عمران پرتاپ گڑھی کے خلاف ایک کروڑ روپئے ہرجانہ کی نوٹس ہے ۔ ڈاکٹر کفیل کو یو پی حکومت مسلسل نشانہ بنانے میں لگی ہے ۔ کئی مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
اسی طرح شاعر عمران پرتاپ گڑھی سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سارے ملک میں گھوم کر عوام میں شعور بیدار کر رہے ہیں اور ان کے خلاف بھی اترپردیش کی آدتیہ ناتھ حکومت نے ایک کروڑ روپئے ہرجانہ کی نوٹس جاری کردی ہے ۔ ان پر الزام محض یہی ہے کہ انہوں نے سی اے اے مخالف احتجاج میں شرکت کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا سرکاری قوانین کے خلاف پرامن احتجاج میں حصہ لینے پر اس طرح کے مقدمات درج کئے جاسکتے ہیں ؟ ۔ کیا حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو غداری کہا جاسکتا ہے ؟ ۔ اس کا جواب ممبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے دیدیا ہے ۔ عدالت نے یہ واضح کردیا ہے کہ جو لوگ پر امن اور جمہوری انداز میں حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں انہیں غدار یا قوم مخالف نہیں کہا جاسکتا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندرمودی حکومت اور یو پی کی آدتیہ ناتھ حکومت کسی بھی قیمت پر مخالفانہ آوازوں کو دبانا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ کرناٹک کی ایک مثال بھی لی جاسکتی ہے جہاں شاہین اسکول میں چھوٹے بچوں نے ایک ڈرامہ پیش کیا تو وہاں بھی اسکول پرنسپل اور ایک طالبہ کی والدہ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا ۔ ان کارروائیوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم واقعی کسی جمہوری ملک میں ہیں یا پھر ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے ؟ ۔ ہم پر کوئی عوامی منتخب حکمران ہے یا پھر ہم کسی تانا شاہ کی مملکت میں سانس لے رہے ہیں ؟ ۔
ہندوستان بھر کی مختلف ریاستوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائیگی کہ معمولی سے اختلاف پر غداری کے مقدمات درج کردئے جاتے ہیں۔ ان مقدمات کو عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود جن کے خلاف یہ الزامات عائد ہوتے ہیں ان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ان مقدمات کو اپنی بالادستی کو یقینی بنانے اور اپنے فیصلوںکو مسلط کرنے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور دستور ہند میں پرامن احتجاج کی پوری اجازت دی گئی ہے ۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کسی تاناشاہ کی مملکت یا کوئی پولیس اسٹیٹ نہیں ہے جہاں مخالفانہ آوازوں کو بزور طاقت دبایا جاسکے ۔ یہ جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک ہی رہیگا۔