کے سی آر کا مودی سے ٹکراؤ

   

تو پھول ہے، تری معراج مسکرانا ہے
تجھے بھی شاخ سے اک روز ٹوٹ جانا ہے
صدر تلنگانہ راشٹرا سمیتی و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے بی جے پی سے سیاسی اختلافات میں شدت پیدا کرتے ہوئے عملا وزیر اعظم نریندر مودی سے ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرلی ہے ۔ چندر شیکھر راؤ نے اپنی پہلی معیاد کے دوران کئی اہم ترین مواقع پر جب بی جے پی کا موقف اہم مسائل پر قدرے کمزور بھی تھا بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی راست یا بالواسطہ تائید کی تھی ۔ انہوں نے عوام کو درپیش مسائل پر بھی حکومت سے ٹکرانے کی بجائے حکومت کی تائید کا موقف اختیار کرنے میں عافیت محسوس کی تھی ۔ اس وقت انہیں شائد بی جے پی کے خفیہ ایجنڈہ کا علم نہیں تھے ۔ وہ بھی دوسری اپوزیشن جماعتوں کی طرح بی جے پی کے کانگریس مکت بھارت کے نعرہ سے فریب کھا گئے تھے ۔ بی جے پی نے دیگرا پوزیشن اور علاقائی جماعتوں کو فریب دینے کانگریس مکت بھارت کانعرہ دیا تھا تاکہ جمہوری سیاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جاسکے ۔ بعد ازاں بی جے پی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور جب اس نے تلنگانہ کے تعلق سے اپنے عزائم کا اظہار کیا اور جارحانہ تیور اختیار کرلئے تو کے چندر شیکھر راؤ کو خود اپنی جماعت کے اقتدار کی فکر لاحق ہوگئی اور انہوں نے قدرے تاخیر سے بی جے پی کے ارادے بھانپ لئے ۔ چندر شیکھر راؤ کی جانب سے بھی بی جے پی کے خلاف جارحانہ تیور اختیار کرلئے گئے اور انہوں نے جس طرح سے بی جے پی کو نشانہ بنایا ہے اس کے پیش نظر وہ ایک طرح سے وزیر اعظم نریندر مودی کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کے دورہ حیدرآباد کے موقع پر ان کے استقبال کی روایت کو ترک کردیا ہے ۔ سابق میں بھی جب نریندر مودی حیدرآباد پہونچے تھے چندر شیکھر راؤ نے ان کا استقبال کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا اور خود دوسری ریاستوں کے دورہ پر روانہ ہوگئے تھے ۔ تاہم آج جب نریندر مودی بی جے پی قومی عاملہ اجلاس میں شرکت کیلئے حیدرآباد پہونچے تو کے سی آر نے شہر میں موجود رہتے ہوئے بھی ائرپورٹ پر ان کا استقبال نہیں کیا اور اپنے ایک وزیر کو انہوں نے وزیر اعظم کے استقبال کیلئے روانہ کیا ۔
چندر شیکھر راؤ نے وزیر اعظم کی آمد سے دو گھنٹے قبل ہی اپوزیشن کے صدارتی امیدوار یشونت سنہا کا ائرپورٹ پر استقبال کیا تھا لیکن مودی کیلئے وہ ائرپورٹ نہیں پہونچے ۔ اس طرح انہوں نے بھی اپنے تیور واضح کردئے ہیں ۔ وہ بی جے پی پر جس طرح سے تنقیدیں کر رہے ہیں اور جس طرح سے وزیرا عظم کی آمد سے قبل شہر میں ان کے خلاف ہورڈنگس وغیرہ لگائے گئے ہیں وہ بھی کے سی آر کے جارحانہ تیور کی مثال ہے ۔ تاہم اصل بات یہ ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے بی جے پی کے استحکام کو کس حد تک روکنے میں کامیاب ہونگے ۔ چندر شیکھر راؤ اور ان کے فرزند ریاستی وزیر کے ٹی راما راؤ بھی بی جے پی کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں لیکن بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے وہ بھی جوابی تنقیدوں میں کسی سے پیچھے نہیںہے ۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے ٹکراو کی راہ پر ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف تنقیدوں کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ کو ایک گھاگھ سیاست دان سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ کس وقت پر کیا فیصلہ کرینگے وہ کسی کو پتہ نہیں ہوسکتا ۔ تاہم یہ بات ضرور کہی جا رہی ہے کہ وہ کانگریس کی مخالفت میں بی جے پی کے عزائم کا بروقت اندازہ لگانے میں ناکام رہے اور بی جے پی کے فریب کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب اپنی ایک طرح سے بھڑا س نکالتے ہوئے تقاریر بھی کر رہے ہیں اور تلنگانہ میں اپنی جماعت اور اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔ اس تعلق سے انہوں نے اپنے تیور صاف کردئے ہیں۔
کے سی آر نے بی جے پی سے اختلافات کی شدت میں راست وزیر اعظم سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قومی سطح پر ایک تیسرا محاذ بنانے کی بھی کوشش کر رہے تھے ۔ جب یہ کوششیں ثمر آور ہوتی نظر نہیںآئیں تو انہوں نے ٹی آر ایس کو قومی جماعت میں تبدیل کرنے کا بھی ارادہ کیا تھا ۔ اس پر بھی تاحال وہ عمل نہیں کرپائے ہیں۔ اب جبکہ بی جے پی نے تلنگانہ کیلئے پوری شطرنج کی بساط بچھا دی ہے اور اس پر عمل کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے تو یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس ٹکراؤ کے نتائج کیا برآمد ہونگے ۔ کیا بی جے پی ‘ ریاست میں اقتدار حاصل کر پائے گی ؟ ۔ کیا کے سی آر بی جے پی کو مات دیتے ہوئے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہونگے ؟ یا پھر ان دونوں کی لڑائی میں کانگریس پارٹی درمیان سے اپنے لئے کوئی راستہ بنانے میں کامیاب ہوجائیگی ؟ ۔ ان سوالات کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے ۔
اودے پور قتل کا نیا موڑ
اودئے پور میں پیش آئے ٹیلر کے قتل کے واقعہ نے نیا موڑ اختیار کرلیا ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ٹیلر کا قتل کرنے والے کا تعلق بی جے پی اور آر ایس ایس کی اقلیتی تنظیم مسلم راشٹریہ منچ سے ہے ۔ کانگریس نے اس سلسلہ میں کچھ تصاویر سوشیل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں جن میں حملہ آور کو مسلم راشٹریہ منچ اور بی جے پی کے قائدین کے ساتھ موجود دکھایا گیا ہے ۔ یہ اس واقعہ کا ایک نیا موڑ ہے جس کی مکمل اور غیرجانبداری کے ساتھ تحقیقات کی جانی ضروری ہیں۔ یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ راجستھان میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے اس سارے واقعہ کا استحصال کرنا شروع کردیا ہے حالانکہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کا تعلق بی جے پی سے راست یا بالواسطہ طور پر بتایا جا رہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر کچھ تصاویر وائرل ہوئی ہیں جن میں حملہ آوروں کی تصاویر پیش کی گئی ہیں ۔ بی جے پی نے حملہ آوروں سے کسی تعلق کو مسترد کردیا ہے اور ان الزامات کو بھی مسترد کردیا ہے لیکن اس بات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ اس سارے معاملہ کی سچائی اور حقیقت کیا ہے ۔ اس واقعہ کے پس پردہ کوئی سازش ہے تو اس کے محرکات کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ سارا ملک اس کی سچائی سے واقف ہوسکے ۔