گجرات میونسپل انتخابات

   

ہمارا کیا ہمیں تو ڈوبنا ہے ڈوب جائیں گے
مگر طوفان جا پہونچا لب ِساحل تو کیا ہوگا
گجرات میونسپل انتخابات
گجرات میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں اپوزیشن کانگریس نے ریاستی الیکشن کمیشن کو 9 شکایات درج کروائی تھی ۔ ان میں سے کئی شکایات ایسی ہیں جو الیکشن کمیشن کی کوتاہیوں اور مقامی نظم و نسق کی لاپرواہیوں کی جانب نشاندہی کرتی ہیں ۔ ووٹر لسٹ میں خامیوں کی شکایت پر بھی کانگریس کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی نے ان انتخابات میں حسب سابق اپنی جیت برقرار رکھی مگر یہ جیت کس طرز میں حاصل کی گئی ہے اس تعلق سے الیکشن کمیشن کو اندازہ ہونا چاہئے کیوں کہ انتخابات کو جمہوری طریقہ سے منعقد کروانا شفاف اور منصفانہ ہونا بڑی بات ہے ۔ احمدآباد میونسپل انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مبینہ خرابی کی شکایت کا بھی نوٹ نہیں لیا گیا ۔ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ انتخابات کے لیے متعلقہ حکام کے رہنمایانہ خطوط پر عمل نہیں کیا گیا ۔ چیف منسٹر وجئے روپانی کے خلاف شکایت کو بھی جب ریاستی الیکشن کمیشن نے نظر انداز کردیا تو اپوزیشن کو اہمیت نہ دینے کے برابر ہے ۔ جمہوری ملک میں اگر انتخابات جس کی لاٹھی اُس کی بھینس بن جائیں تو پھر ان انتخابات کو منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ چیف منسٹر روپانی کے لیے یہ میونسپل انتخابات آزمائش کی گھڑی تھے ۔ ان کے نتائج آنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی اپنی ساری طاقت جھونک کر آنے والے اسمبلی انتخابات میں اسی طرح کامیاب ہونے کی کوشش کرے گی ۔ بی جے پی نے ریاست گجرات میں کئی میعاد پوری کی ہیں ۔ 6 کارپوریشن پر اس کا ہی غلبہ ہے ۔ اصل اپوزیشن کانگریس کو یہاں پیچھے ہی رہنا پڑا ہے ۔ انتخابات کے لیے چلائی گئی مہم میں بی جے پی نے ریاست میں ترقیاتی کارڈ کو استعمال کیا جب کہ کانگریس نے جو ایک طویل عرصہ سے اقتدار سے باہر ہے ، انتخابی مہم میں سہولتوں کی کمی اور ترقیاتی کاموں کی عدم انجام دہی کے نعرے پر الیکشن لڑا ۔ عوام نے خاص کر بھکتوں نے تمام خرابیوں کے باوجود بی جے پی حکومت کی ہی تائید کی ہے۔ حالیہ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور بے تحاشہ مہنگائی سے بھی لوگ پریشان نہیں ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی نے اپنا مذہبی سحر برقرار رکھا ہے ۔ گجرات بلدی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بھی حصہ لیا ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست گجرات میں بی جے پی اور کانگریس کا موثر متبادل ہوگی ۔ لیکن بی جے پی کے پاس انتخابات جیتنے کی حکمت عملی ہے اور وہ اپنی طاقت کا زبردست فائدہ بھی اٹھانا جانتی ہے ۔ رائے دہندوں کو گمراہ کرنے یا انھیں اقلیت بتاکر انتخابات میں اثر انداز ہونے کا حربہ اختیار کرنے میں وہ اب تک کامیاب ہورہی ہے تو اسی طرز پر اس کا سیاسی سفر آگے بڑھ رہا ہے ۔ 6 میونسپل کارپوریشن کے 576 نشستوں کے لیے اتوار کو رائے دہی ہوئی تھی ۔ احمد آباد اور وڈوڈرا کے بشمول تمام 6 کارپوریشنوں میں بی جے پی کی کامیابی حیران کن بات نہیں ہے لیکن اپوزیشن نے جو شکایات درج کروائی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی کو سارے ملک میں کسانوں کے احتجاج کا سامنا ہے اور عوام بھی پریشان ہیں ۔ اس کے باوجود اگر گجرات کا رائے دہندہ بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنایا ہے تو اپوزیشن کو عوام کے فیصلہ کا احترام کرنا چاہئے ۔ سابق میں بھی بی جے پی ہی کامیاب رہی ہے ۔ ریاست گجرات کا رائے دہندہ اپنے لیے ایک سیاسی طاقت کو مقرر کرلیا ہے تو اپوزیشن کا کام ہے کہ وہ عوام کی خدمت اور حکومت کی عدم کارکردگی کے بارے میں رائے دہندوں کو راست معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرے ۔ بی جے پی کی اس طاقت کے باوجود بعض حلقوں میں عام آدمی پارٹی کی کوشش قابل ستائش ہے ۔ کانگریس کو ہی اپنے سیاسی کیڈر کو مضبوط بنانے اور گجرات کے علاوہ ملک کے رائے دہندوں کے سامنے اپنی موثر کارکردگی ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے ۔۔