گرما میں عوام کی پسند ’ چوگر ‘ کی قیمتیں 700 روپئے تک پہونچ گئیں

   

فوائد سے متعلق ڈاکٹرس کے مشوروں کے بعد قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ
حیدرآباد۔23اپریل(سیاست نیوز) شہر میں موسم گرما کے دوران پسند کی جانے والی ترکاریوں میں ’چوگر‘ سرفہرست شمار کیاجاتا ہے لیکن چند برسوں میں املی کے درخت کے ان پتوں کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور چند برسوں سے اس کی قیمت 400 روپئے تک ہوا کرتی تھی لیکن جاریہ موسم گرما کے دوران حیدرآبادیوں کی مرغوب غذاء ’چوگر‘ جو ذائقہ میں کھٹی ہوتی ہے اس کی قیمت 700 روپئے تک پہنچ چکی ہے اور شہر کے رعیتو بازاروں کے قریب ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے ’چوگر‘ کی قیمت بکرے کے گوشت کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ترکاری فروشوں سے دریافت کرنے پر کہا جا رہاہے کہ انہیں زیادہ قیمت میں ملنے کے سبب وہ اپنا منافع رکھتے ہوئے فروخت کر رہے ہیں جبکہ گذشتہ دو ہفتہ قبل بھی ’چوگر‘ کی قیمت 400تا500 روپئے تھی لیکن اس میں اچانک اضافہ کے متعلق کوئی بھی تشفی بخش جواب دینے تیار نہیں ہے ۔ چند برس قبل تک بہ آسانی دستیاب ہونے والے ’چوگر ‘ کی قیمتوں میں اضافہ پر کہا جا رہاہے کہ چوگر کے فوائد کے متعلق ماہرین تغذیہ سے تفصیلات پیش کئے جانے کے بعد کئی لوگوں نے اس کا استعمال بطور غذاء کے بجائے غذاء بھی اور دوا بھی کے طور پر کرنا شروع کیا ہے جس کا ترکاری فروش اور کاشتکار فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد میں ’چوگر‘ اگر کہیں کم قیمت میں دستیاب ہے تو وہاں ناپ تول میں کمی کا خدشہ ہے اور جہاں قیمت زیادہ ہے وہاں بھی کوئی طمانیت نہیں ہے کہ ناپ تول درست ہو ۔ موسم گرما میں املی کے درخت پر اگنے والے نئے پتے جنہیں ’چوگر‘ کہا جاتا ہے انہیں شہر میں شوق سے استعمال کیا جاتا ہے ۔چوگرشہر کے نواحی علاقوں اور دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہوتا ہے لیکن اس کی قیمت اس قدر زیادہ نہیں ہوتی لیکن شہری علاقوں میں چوگر کے استعمال کے سلسلہ میں ڈاکٹرس کے مشورہ کے بعد اس کی قیمت میں زبردست اضافہ ہونے لگا ہے اور ترکاری فروشوں کا کہنا ہے کہ کاشتکاروں کو ان پتوں کو توڑنے میں مشکل کے سبب اس کی قیمت زیادہ ہے۔3