گوا کی پروفیسر نے منگل سوترا کا موزانہ کتے کے گلے کے پٹے سے کیا۔ مقدمہ درج

,

   

نئی دہلی۔ گوا کی ایک اسٹنٹ پروفیسر کے خلاف ”جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے“ کے لئے پیر کے روزایک ایف ائی آر درج کرلی گئی ہے۔

بظاہر طور پر مذکورہ پروفیسر نے چھ ماہ قبل اپنے فیس بک پوسٹ میں منگل سوتر بندھی ہوئی ایک عورت کو ”زنجیروں میں جکڑے ہوئے کتے“ سے تشبیہ دی تھی۔

انڈین ایکسپرس کے بموجب مذکورہ مقدمہ گوا کے راشٹرایہ ہندو یوا وہانی کے ممبرراجیو جہاکی شلپا سنگپ کے خلاف شکایت پر درج کیاگیاہے جو پناجی کے ایک لاء کالج میں پولٹیکل سائنس پڑھاتی ہیں۔

سابق میں اے بی وی پی نے بھی سنگھ کے خلاف ایک شکایت درج کرتے ہوئے ان کی جانب سے طلبہ کودئے جانے والے درس پر عنوان پر اعتراض جتایاتھا۔

سنگھ نے جہاکے خلاف بھی ایک شکایت درج کی ہے جس کی بنیاد پر اس کے خلاف بھی ایک ایف ائی آر جاری کیاگیاہے۔

سنگھ نے جہا پر اپنے فیس بک پوسٹ کے ذریعہ ان کے خلاف مجرمانہ مقصد کے ساتھ بے ہودہ الفاظ کااستعمال کیاہے۔

دکن ہیرالڈ کے بموجب سنگھ کے خلاف درج ایف ائی آر میں کہاگیاہے کہ ”مذکورہ ملزم کا ایک فیس بک پروفائل شلپا سریندر پرتاب سنگھ کے نام سے ہے اور اپنے فیس بک اکاونٹ کے ذریعہ انہو ں نے ایک پوسٹ کیاہے جس کے ذریعہ جان بوجھ کرمذہبی جذبات کوٹھیس پہنچانے کاکام کیاگیاہے او رائی پی سی کی دفعہ 295اے کے تحت یہ جرم آتا ہے“۔

ایف ائی آر درج ہونے سے قبل اپنے تبصرے پر سنگھ نے افسوس کا اظہار بھی کیاتھا۔دی وائیر کے بموجب مذکورہ تبدیلی اس وقت ائی جب مذکورہ لاء کالج نے سنگھ کے خلاف اے بی وی پی کی شکایت پر ردعمل پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان کی تعلیم دینے کے عمل پر اعتراض کے لئے ادارے کے پاس ”مناسب موقف“ نہیں ہے۔

مذکورہ کالج ان کے خدمات کو برخواست کرنے کی بات کو مسترد کرتا ہے۔ مذکورہ اے بی وی پی کی شکایت میں دعوی کیاگیاہے کہ سنگھ کے لکچر سے ”ایک مخصوص مذہب کے متعلق سماجی طو رپر نفرت انگیز خیالات“ کو فروغ مل رہا ہے۔

انڈین ایکسپرس کے بموجب جہا نے کہاکہ وہ اے بی وی پی کے لیٹر سے واقف ہیں اور انہوں نے”شخصی طور پر“ یہ شکایت درج کرائی ہے۔

جہا نے مذکورہ نیوز پیپر کو بتایاکہ وہ ”عملی طو رپر ہندو برہمن‘’ہیں اور سنگھ کو ”ہندو دشمن“ قراردیا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ”چونکہ وہ ایک عورت ہے میں اس لئے تھانے گیا۔

اپنی زندگی کو خطرہ بتاکر اور بدسلوکی پر مشتمل اس نے جوابی شکایت درج کرائی ہے۔

میں راست طو رپر کالج جاسکتا تھا اور کاروائی کی مانگ کرسکتا تھا۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا“۔