گورنرس و ریاستی حکومتوں کا ٹکراؤ

   

اُن کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچیں
گورنرس و ریاستی حکومتوں کا ٹکراؤ
ہندوستان وفاقی جمہوری ملک ہے جہاں ہر ریاست میں ایک الگ حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب کی جاتی ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے نگران حکومت کے طور پر گورنرس کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی جو تاریخی روایات رہی ہیں ان کے مطابق گورنرس اور ریاستی حکومتوں کے مابین بہترین تال میل ہوتا ہے ۔ بعض مواقع پر حالانکہ گورنرس کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا ۔ یہ مسائل عدالتوں تک بھی پہونچے تھے اور عدالتوں نے بعض مواقع پر گورنرس کے اقدامات کو کالعدم بھی قرار دیا تھا ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ گورنرس کے غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومتوں سے ٹکراو کے واقعات زیادہ پیش آنے لگے ہیں۔ جو ریاستی حکومتیں ہیں ان کا الزام ہے کہ گورنرس مرکزی حکومت کی ایماء پر ریاستی حکومتوں کے ترقیاتی کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ گورنرس کے عہدہ اور وقار کے مغائر اقدامات ہیں ۔ اب تو یہ مسئلہ اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ چیف منسٹروں کو گورنرس کے خلاف احتجاج تک کرنا پڑ رہا ہے ۔ جب گورنرس کا تقرر کیا جاتا ہے تویہ لوگ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوجاتے ہیں اور ان کو جماعت کی شناخت سے زیادہ دستوری عہدہ کی شناخت سے جانا جاتا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ شناخت بدلنے لگی ہے ۔ جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں یا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے اس کے مطابق گورنرس دستوری عہدہ سے زیادہ جماعتی وابستگی کی بنیاد پر کام کاج کر رہے ہیں۔ یہ الزام بھی عائد کئے جا رہے ہیں کہ مرکزی حکومت کی ایماء پر ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں اور اپنے عہدہ کے وقار کا بھی لحاظ نہیں رکھا جا رہا ہے ۔ یہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں کیونکہ اس سے ایک دستوری عہدہ کے وقار پر سوال اٹھ رہا ہے اور اگر ان میں سچائی ہے تو یہ انتہائی سنگین صورتحال قرار دی جاسکتی ہے ۔ جماعت کی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دستور اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور دستوری عہدہ پر فائز رہتے ہوئے یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کی پہلی مکمل معیاد میں دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کے خلاف انہوں نے شدید احتجاج کیا تھا اور یہ الزام عائد کیا تھا کہ گورنر مرکزی حکومت کے ایجنٹ کی طرح کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اس حقیقت سے بھی سبھی واقف ہیں کہ مغربی بنگال میں گورنر اور چیف منسٹر میں شدید اختلافات چل رہے ہیں۔ گورنر کی جانب سے ریاستی حکومت پر اور ریاستی حکومت کے ذمہ داروں اور چیف منسٹر کی جانب سے گورنر پر سنگین الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ گورنر کے خلاف عوامی سطح پر اور طلبا کی جانب سے بھی احتجاج کیا جا رہا ہے اور گورنر ریاستی حکومت کے خلاف شدید ریمارکس کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ ایک تا دیڑھ سال میں شدت اختیار کرگیا ہے ۔ ابھی اس سلسلہ کے تھمنے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اسی طرح پڈوچیری میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ وہاں کی لیفٹننٹ گورنر کرن بیدی کے طرز کارکردگی اور اقدامات پر چیف منسٹر نارائن سامی نے احتجاج شروع کردیا ہے اور وہ گذشتہ تین دن سے گورنر کی قیامگاہ کے قریب سڑک پر بیٹھ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو عوام کی رائے کے مغائر کہی جاسکتی ہے ۔ جو حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہیں انہیں کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں اور حکومتوں کی جانب سے بھی گورنرس کے دستوری عہدہ کا پاس و لحاظ رکھا جانا چاہئے ۔ ہر دو فریقین کو ریاست اور ریاستی عوام کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اشتراک میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
حالیہ عرصہ میں جو رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں وہ سارا ملک مشاہدہ کر رہا ہے اور یہ ملک کے مفاد میں اور ریاستوں کے مفاد میں ہرگز نہیں کہے جاسکتے ۔ یہ ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس میں عوامی منتخبہ حکومتوں کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ گورنرس کو ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے نگران کار کی ذمہ داری نبھانی چاہئے اور جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ وہ حکومتوں کے کام کاج میں مداخلت کر رہے ہیں اور اس میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں اگر یہ الزامات درست ہیں تو ان شکایات کا ازالہ فوری طور پر کیا جانا چاہئے ۔ دستوری عہدوں کا احترام بھی برقرار رکھا جانا چاہئے اور عوامی منتخبہ حکومتوں کو بھی کام کاج کا پورا موقع ملنا چاہئے ۔