گورنر ٹاملناڈو کی سرزنش

   

گنگ الفاظ ہوئے میری زباں کے لیکن
بڑھ کے آنکھوں میں مری اشک ندامت آئے
گذشتہ کچھ برسوںمیں ملک میں ایسے بے شمار واقعات پیش آ رہے ہیں جن میں عدالتوں کو مداخلت کرتے ہوئے حالات کو درست راہ پر گامزن کرنا پڑ رہا ہے ۔ اسی طرح کے کچھ واقعات میں ریاستی گورنرس کی جانب سے ریاستی حکومتوں کے ساتھ ٹکراؤ کی صورتحال کا پیدا کیا جانا بھی شامل ہے ۔ کئی ریاستوںمیںریاستی گورنرس نے حکومتوںکے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عوام کے ذریعہ منتخب کردہ حکومتوں کے رول کو گھٹانے کی کوشش کی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کی سفارشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک طرح سے خود کی بالادستی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ گورنرس مرکز میںبرسر اقتدار پارٹی سے اپنے تعلقات اور وابستگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کر رہے ہیں جو ریاست کے دستوری سربراہ کیلئے مناسب نہیںہے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی جہاں گورنر نے ریاستی حکومتوں کی سفارشات کو قبول نہیںکیا بلکہ ان کے کام کاج میں ایک طرح سے رخنہ اندازی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ٹاملناڈو گورنر کو اب اسی روش کی وجہ سے سپریم کورٹ کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ گورنر ٹاملناڈو نے ڈی ایم کے لیڈر پونموڈی کو ریاستی وزیر کی حیثیت سے حلف دلانے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ چونکہ انہیںایک مقدمہ میں سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ نے صرف معطل کیا ہے اور سزا کالعدم نہیں کی ہے اس لئے انہیں وزیر کی حیثیت سے حلف دلانا دستور کی خلاف ورزی ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آیا گورنر سپریم کورٹ کے احکام کو بھی بالائے طاق رکھ رہے ہیں ؟۔ در اصل ٹاملناڈو کے ایک ڈی ایم کے لیڈر پونموڈی کو ایک مقدمہ میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ قوانین کے مطابق ان کی ایوان کی رکنیت ختم کردی گئی ۔ تاہم انہیںسپریم کورٹ سے راحت نصیب ہوئی ۔ عدالت نے ان کی سزا کو معطل کیا اور ان کی ایوان کی رکنیت کو بحال کردیا ۔ اس پر حکومت نے انہیںکابینہ میںشامل کرنے وزیر کی حیثیت سے حلف دلانا چاہا لیکن گورنر ٹاملناڈو نے اس سفارش سے انکار کردیا تھا ۔
گورنر کا کہنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے سزا معطل کی ہے اور سزا برخواست نہیں کی ہے اس لئے انہیں وزیر کی حیثیت سے حلف دلانا دستور کی خلاف ورزی ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے اس اقدام پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور ایک طرح سے گورنر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آیا اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہے ؟۔ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک اہمیت کا حامل ہے ۔ چونکہ یہ ریمارک ایک دستوری سربراہ ریاستی گورنر کے خلاف کیا گیا ہے اس لئے اس کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ گورنر یقینی طورپر ریاست کے دستوری سربراہ ہوتے ہیں۔ ان کی بالادستی اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ تاہم ریاستی حکومتیں بھی عوام کے ووٹ کے ذریعہ منتخب ہوتی ہیں۔ حکومتیں چلانا اور کسی کو وزارت میںشامل کرنا چیف منسٹر کا اختیار تمیزی ہوتا ہے ۔ یہ اختیار بھی ملک کے دستور اور قانون نے ہی دیا ہے ۔ اس کو چھیننے کا کسی کو بھی حق نہیں دیا گیا ہے ۔ ملک میں جو قاعدہ موجود ہے اس کے مطابق اگر کسی کو فوجداری مقدمہ میں دو سال قید کی سزا ہوتی ہے تو اس کی اسمبلی یا پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے ۔ تاہم اگر اس سزا کو بالائی عدالت کی جانب سے معطل کردیا جاتا ہے تو یہ رکنیت بحال ہوجاتی ہے ۔ حالیہ وقتوں میں ایسے کئی واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں سب سے بڑی مثال راہول گاندھی کی ہے ۔ ان کو ایک مقدمہ میں سزا سنائی گئی ۔ ان کی رکنیت برخواست کردی گئی تھی ۔ ان کا گھر چھین لیا گیا تھا ۔ سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر حکم التواء جاری کردیا گیا جس کے بعد راہول کی رکنیت بحال کردی گئی ۔
ملک میں مروجہ قوانین اور طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے اگر سیاسی اختلاف کو ترجیح دی جاتی ہے تو اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے ۔ گورنر کو اپنے دستوری عہدہ کا وقار برقرار رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کو کسی طرح کی سیاسی مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے قوانین اور دستور کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی ختلافات دستوری عہدوں پر ہرگز بھی ذیب نہیںدیتے ۔ عدالتیں اگر اس طرح کے ریمارکس کرنے پر مجبور ہوتی ہیں تو گورنرس کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے انہیںدستوری گنجائش کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔