گھر گھر سروے کی ہدایت

   

غم زندگی سازگار آ نہ جائے
تمہیں میری حالت پہ پیار آ نہ جائے
گھر گھر سروے کی ہدایت
مرکزی وزارت صحت نے ملک کی 10 ریاستوں کے 38 اضلاع میں 45 بلدیات کو ہدایت دی ہے کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ اور تیزی کے پیش نظر گھر گھر سروے کرنے پر توجہ دیں۔ مرکزی حکومت کی یہ ہدایت اہمیت کی حامل ہے اور یہ کام نہ صرف چند بلدیات میں کیا جانا چاہئے بلکہ ملک کے بیشتر حصوں میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالیہ عرصہ میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جس وقت سے لاک ڈاون کی تحدیدات میں نرمی دی گئی ہے اور مائیگرنٹس کی ان کے آبائی مقامات کو منتقلی عمل میں آئی ہے اس کے بعد سے کورونا کے پھیلاو کی رفتار میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے بلکہ تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کورونا ابھی اپنے عروج کو نہیں پہونچا ہے اور آئندہ وقتوں میں یہ عروج ہوسکتا ہے اور صورتحال مزید سنگین بھی ہوسکتی ہے ۔ لاک ڈاون کی وجہ سے پریشان عوام ابتداء میں تحدیدات کی برخواستگی کے حق میں ضرور تھے لیکن جیسے جیسے کورونا کیسوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے خود عوام میں ایک طرح کی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ کچھ گوشوں سے اور خاص طور پر ماہرین طب کی جانب سے لاک ڈاون کی تحدیدات میں دی گئی نرمی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مائیگرنٹس کی جو لاکھوں کی تعداد میں منتقلی عمل میں آئی ہے اس کے نتیجہ میں یہ تیزی اور شدت آئی ہے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا تھا کہ گھر گھر سروے کرتے ہوئے عوام کے معائنے کئے جانے چاہئیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ کورونا کے معائنے کرنے کی رفتار انتہائی سست ہے ۔ ملک کی ایک یا دو ریاستوں میں قدرے زیادہ تعداد میں معائنے ہوئے ہیں لیکن بیشتر ریاستوں میں معائنوں کی رفتار انتہائی کم ہے اور اس میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ گھر گھر سروے کے ساتھ معائنے کرنے پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی اعداد و شمار کا پتہ چل سکے ۔ قطعی صورتحال کا پتہ چلنے کے بعد ہی اس سے نمٹنے کی حکمت عملی ایک حقیقت پسندانہ انداز میں طئے کی جاسکتی ہے ۔
ہندوستان نے جس تیزی سے کورونا متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے اس سے بے چینی اور اندیشے پیدا ہوگئے ہیںاور عوام میں خوف بھی پیدا ہونے لگا ہے ۔ حکومت اگر گھر گھر سروے کے ساتھ ساتھ وہاں معائنے بھی کرتی ہے تو پھر حقیقی صورتحال سامنے آسکتی ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں مائیگرنٹس مختلف ریاستوں سے اپنے آبائی مقامات کو پہونچے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کتنے مائیگرنٹس اپنے ساتھ کورونا اپنے آبائی مقامات کو لے گئے ہیں اور ان سے وہاں کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ صحتمند مائیگرنٹس اپنے آبائی مقامات کو پہونچنے کے بعد وہاں کسی سے رابطے میں آکر کورونا سے متاثر بھی ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں نہ صرف سروے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ معائنوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ صرف جو لوگ علامات کے ساتھ رجوع ہو رہے ہیں ان کا معائنے کرتے ہوئے رپورٹس کی بنیاد پر اعداد و شمار تیار کرنا کافی نہیں ہوسکتا ۔ حکومت بھی یہ سمجھتی ہے کہ معائنوں کی رفتار کم ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی بارہا کہا جا رہا ہے کہ محدود تعداد میں معائنے کئے جا رہے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہئے ۔ سروے کے دوران دوسرے مختلف پہلووں کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی حالت اور ان کی ضروریات کو بھی سمجھا جاسکے ۔
حالیہ عرصہ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے جو لوگ متاثر ہو رہے ہیں ان کی اکثریت میں کورونا کی کوئی واضح علامات بھی دکھائی نہیںدے رہی ہیں۔ بعض مقامات سے شکایت بھی ہے کہ علامات نہ پائی جانے پر معائنے کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جن 38 اضلاع میں گھر گھر سروے کرنے کی ہدایت دی گئی ہے وہ ملک کی شدید متاثرے ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کم از کم ان اضلاع میں معائنوں کی رفتار کو تیز کرنا چاہئے اور اس کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے ۔ سروے کے دوران کورونا پھیلنے کی وجوہات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے اس کی روک تھام کیلئے بھی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک شدت کے ساتھ کورونا پر قابو اپنے کیلئے ہمہ جہتی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک اس کے پھیلاو اور رفتار پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا ۔