گیس قیمتیں ‘ عوام بدحال

   

ہم نے دیکھے تھے بہت خواب سہانے لیکن
ایسی تعبیر ملی ، ہوش ٹھکانے آئے
ملک میں پکوان گیس کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کردیا گیا ہے ۔ یہ اضافہ 50 روپئے کا ہے جس کے بعد ایک طرح سے پکوان گیس پر سبسڈی عملا ختم ہوچکی ہے ۔ پکوان گیس کی قیمتیں اب 1100 روپئے سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ کچھ ریاستوں میں مقامی ٹیکس ڈھانچہ کے نتیجہ میں معمولی سی کمی بیشی ہوگی ۔ تاہم یہ واضح ہوگیا ہے کہ پکوان گیس بھی اب عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوچلی ہے ۔ گیس قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے ذریعہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور انہیں ایسے معاشی بوجھ سے دوچار کیا جا رہا ہے جس سے بچنا ان کے بس کی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ مرکز کی نریندرمودی حکومت عوام کو کئی طرح کی راحت دینے کی بات کرتی ہے لیکن عوام کے ذہنوں کو متنازعہ مسائل سے پراگندہ کرنے کے بعد ہر شہری کو لوٹا جا رہا ہے ۔ کبھی پٹرول کے ذریعہ تو کبھی ڈیزل قیمتوں کے ذریعہ تو کبھی پکوان گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ یہ لوٹ جاری ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن حکومت مسلسل پٹرولیم اشیا اورفیول کی قیمتیں وقفہ وقفہ سے بڑھا رہی ہے ۔ چونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں انتہائی حدوں کو پہونچ گئی تھیں اور ان میں یومیہ مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اس وجہ سے اسے فی الحال ایک بریک دیا گیا ہے لیکن جب اس جانب سے عوام کی توجہ مبذول ہوگئی تو اچانک ہی گیس کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا ۔ ایک طرح سے گیس قیمتوں پر سبسڈی کو مکمل ختم کردیا گیا ہے ۔ چند روپئے کی عوام کو سبسڈی فراہم کرنے میں حکومت کو عار محسوس ہو رہی ہے لیکن ہزاروں کروڑ روپئے کے بینک گھوٹالے ہو رہے ہیں اور عوامی بینکوں کا دیوالیہ نکل رہا ہے ۔ بڑے کارپوریٹ تاجر جو شائد سرکاری حلقوں کے حاشیہ بردار بھی ہیں ہزاروں کروڑ روپئے کے قرض حاصل کرتے ہوئے ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ ان ہزاروں کروڑ روپئے کی وصولی یا بینک دھوکہ دہی کے واقعات کو روکنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے بلکہ اس جانب عوام کی توجہ ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ عوام کو ایک طرح سے بنیادی مسائل سے مسلسل دور کیا جا رہا ہے اور پروپگنڈہ کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔
ملک میں صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ حکومت کی جانب سے مہنگائی کا بوجھ عائد کئے جانے پر احتجاج کرنے یا آواز بلند کرنے کی بجائے نفرت انگیز سیاست کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت سے ان کے ذہنوں کو پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ وہ حکومت کے ہر بوجھ کو برداشت کرنے کیلئے تیار رہنے کے دعوے کر رہے ہیں حالانکہ ان کا اپنا گھریلو بجٹ بھی متاثر ہوکر رہ گیا ہے ۔ ان کی اپنی زندگی مسائل کا شکار ہوگئی ہے ۔ بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عوام اپنے بچوں کی اسکول فیس ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ آٹے دال کی قیمتیں بھی عوام کی پہونچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ دودھ اور ادویات الگ سے مہنگے ہوگئے ہیں۔ حکومت عوام کی ضرورت والی اشیا پر جی ایس ٹی کی شرحوں میں اضافہ کرتی جا رہی ہے وہیں کارپوریٹ طبقہ کو مراعات اور سہولیات کا سلسلہ جاری ہے ۔ دولت مند افراد کے استعمال والی اشیا پر جی ایس ٹی کی شرح انتہائی کم ہے ۔ عوامی ضروریات کی معمولی سی اشیا پر بھی ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ کو الگ الگ انداز میں عوام پر منتقل کرتے ہوئے کارپوریٹس کو نفع پہونچایا جا رہا ہے ۔ اب جو گیس کی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں وہ عوام پر مسلسل بوجھ عائد کرنے کے مترادف ہی ہے ۔ حکومت تیل کمپنیوں پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی ہے لیکن اپنے محاصل اور ٹیکسوں میں کسی طرح کی کٹوتی نہیں کی جاتی ۔ ٹیکس وصول کرتے ہوئے کارپوریٹس کو راحتیں پہونچائی جاتی ہیں۔
جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا سوال ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اس طرح کے بنیادی مسائل پر آواز اٹھانے کی بجائے اپنی بقاء اور وجود کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں۔ انہیں بھی حکومت کے یکے بعد دیگر کئے جانے والے وار برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔ وہ اپنے مسائل میں عوامی مسائل کو فراموش کرنے لگے ہیں۔ ان حالات میں عوام کو ایک طرح سے کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ من مانی فیصلے کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بوجھ عوام پر عائد کرے ۔ تاہم حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہوسکتا ہے اور اس وقت حکومت کی کوئی چال یا ہتھکنڈہ کارآمد یا سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔