ہاتھی کی موت پر بھی زہر افشانی

   

اِن مفلسوں کے پاس کہاں دردِ زندگی
اہل کرم سے اپنی وفا کا صلہ نہ مانگ
ہاتھی کی موت پر بھی زہر افشانی
کیرالا میں ایک ہاتھی کی موت کو بھی ہندو ۔ مسلم رنگ دینے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ ہاتھی کو کیرالا کے پالکڑ ضلع میں نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کی موت واقع ہوگئی تاہم اس کو ملا پورم سے جوڑنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں بہت تیزی کے ساتھ شروع کردی گئیں اور جنونیت کی انتہا پر پہونچتے ہوئے ٹوئیٹر اور دوسرے سوشیل میڈیا پر زہر افشانی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ پالکڑ ضلع میں ایک حاملہ ہاتھی کو ایسا انناس کھلایا گیا جس کے اندر پٹاخے بھرے ہوئے تھے ۔ جیسے ہی مادہ ہاتھی نے یہ انناس کھایا اس کے منہ میں دھماکہ ہوگیا اور وہ انتہائی تکلیف کے عالم میں پانی میں اتر گئی اور وہیں تکلیف کے عالم ہی میں اس کی موت واقع ہوگئی ۔ ہاتھی ایک بے ضرر اور بے زبان جانور ہے اور جانوروں کے ساتھ بھی اس طرح کا وحشیانہ برتاو قابل مذمت ہے ۔ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے ان کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جانا چاہئے ۔ چیف منسٹر کیرالا پنیاری وجئین نے آج ہی واضح کیا ہے کہ اس سلسلہ میں تین مشتبہ افراد کی شناخت ہوئی ہے اور انہیں حراست میں لیا جانے والا ہے ۔ تاہم اس سارے واقعہ کو ہندو مسلم رنگ دینے کیلئے فرقہ پرست گوشے فوری حرکت میں آگئے ہیں اور سارے واقعہ کو ملاپورم سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ واقعہ ایسے ضلع میںپیش آیا ہے جہاں 70 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ اگر اسی طرح کوئی واقعہ پیش آتا ہے اور اطراف کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر رائے ظاہر کی جانے لگے تو پھر ہندوستان میں یومیہ ہزاروں جرائم ہوتے ہیں اور ان کے اطراف کی آبادی کو اس کیلئے ذمہ دار قرار دینے کا سلسلہ شروع کردیا جانا چاہئے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا تھا کہ ملک کے عوام میں قدرے شعور بیدار ہونے لگا تھا وہ حکومت سے اس کی کارکردگی پر سوال کرنے لگے تھے ۔ کورونا وائرس کی وباء کے دوران حکومت کی مختلف شعبوں میں جو ناکامیاں رہی ہیں اور اس کے جو غلط فیصلے رہے ہیں ان پر عوام میں ایک طرح کی بے چینی اور ناراضگی پیدا ہورہی تھی۔ لوگ حکومت سے سوال کرنے لگے تھے اسی لئے حالات کا رخ بدلنے کی کوشش کی گئی ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے ملک میں کورونا وائرس کی وباء تباہی مچاتی جا رہی ہے ۔ ملک کی معیشت انتہائی متاثر ہوگئی ہے ۔ کروڑہا نوکریاں اور ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی ملنی مشکل ہوگئی ہے ۔ مائیگرنٹ ورکرس پیدل سینکڑوں کیلومیٹر کا سفر طئے کرکے اپنے گھروں تک پہونچنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم انسانیت کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے اگر ہندو مسلم کرنے لگیں تو یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہوگی ۔ تاہم جہاں تک فرقہ پرستوں کا سوال ہے وہ کسی بھی قیمت پر فرقہ پرستی کی آگ کو ٹھنڈی ہونے کا موقع دینا نہیں چاہتے اور اس آگ میں ہر قیمت پر تیل ڈالتے رہنے کو اپنے وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ سوشیل میڈیا پر ذمہ دار افراد کی جانب سے بھی غیر ذمہ دارانہ بیانات دئے جا رہے ہیں اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرتے ہوئے عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے کی دانستہ یا نادانستہ ہر طرح سے کوشش ہو رہی ہے ۔ یہی وہ کوششیں ہیں جو ہندوستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کرنے سے روک رہی ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ملک کی ترقی اور ملک کے عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ ہندو ۔ مسلم فرقہ پرستی کو عروج دینے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ کوششیں ایسی ہیں جن سے ہندوستان بھر کا ماحول پراگندہ ہو رہا ہے ۔ ایک طرف ہمارا میڈیا اس کام میں رات دن مصروف ہے تو سوشیل میڈیا پر بھی اس کا اثر اب واضح ہونے لگا ہے اور سوشیل میڈیا پر بھی اسی طرح کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔
کیرالا ہندوستان کی سب سے زیادہ خواندگی والی ریاست ہے ۔ یہاں تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں اور یہاں بی جے پی و آر ایس ایس کی جانب سے اپنے قدم جمانے کی ہر ممکنہ کوششیں کی گئیں لیکن وہ اب تک کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ ایسے میں ایک ہاتھی کی موت کو تنازعہ میں بدل کر اس کو بھی ہندو ۔ مسلم رنگ دینے کی کوششیں سیاسی موقع پرستی کی بدترین مثال ہوسکتی ہیں ۔ اس طرح کی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کو درپیش سنگین حالات کو بہتر بنانے اور عوام کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے ہر کسی کو اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ فرقہ پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف ان کے عہدہ کا خیال کئے بغیر کارروائی کی جانی چاہئے ۔