ہاتھ اس کا مری دستار تک آ پہنچا ہے

,

   

مولانا رابع ندوی کے مدرسہ پر نشانہ
مساجد اور دینی مدارس پر بری نظریں
راہول گاندھی کی یاترا سے بی جے پی میں کہرام

رشیدالدین
’’بھارت جوڑو‘‘ اس نعرہ نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کردی ہے ۔ بی جے پی جو گزشتہ 8 برسوں سے ناقابل تسخیر تصور کر رہی تھی، اچانک اس کے قائدین کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ مستقبل قریب میں زوال آنکھوں میں دکھائی دینے لگا ہے ۔ راہول گاندھی جن کا بی جے پی کل تک مذاق اڑاتی رہی، ان کے سڑک پر آتے ہی کرسی خطرہ میں دکھائی دینے لگی۔ راہول گاندھی کو کیا نہیں کہا گیا۔ غیر تو غیر خود کانگریس کے ناراض قائدین نے بھی نہیں بخشا۔ کبھی بچکانہ فیصلہ کا الزام تو کبھی سینئر قائدین کو نظرانداز کرنے کا شکوہ۔ بی جے پی نے کبھی پپو تو کبھی امول بے بی کہہ کر پکارا۔ لوگ بھلے کچھ کہہ لیں لیکن خاندانی وراثت کا کچھ تو اثر ہوتا ہے ۔ نہرو ، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی کے بعد ماں سونیا گاندھی کی سیاسی وراثت نے راہول کو کچھ صلاحیتیں دی ہوں گی۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ راہول گاندھی نے اپنی سیاسی وراثت کے استعمال میں تاخیر کردی۔ الغرض دیر آئد درست آئد کے مصداق راہول گاندھی عوام کے درمیان نکل پڑے اور کنیا کماری سے کشمیر تک 3570 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے 12 ریاستوں کا احاطہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ پارٹی میں نئی جان پھونک سکیں۔ بھارت جوڑو نے راجیو گاندھی کی سدبھاؤنا یاترا کی یاد تازہ کردی ہے جو اپوزیشن میں رہ کر شروع کی گئی تھی۔ راہول گاندھی کی یاترا کا ایسے وقت آغازہوا جب کانگریس پارٹی داخلی بحران سے گزر رہی تھی۔ 2014 اور 2019 ء کی مسلسل شکست کے بعد کارکنوں میں مایوسی تھی اور پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے تھے۔ راہول گاندھی نے پارٹی کو بچانے اور ملک کو بی جے پی سے نجات دلانے کیلئے یاترا کا آغاز کرتے ہوئے ’’شہزادہ‘‘ کے بجائے خود کو ورکر ثابت کیا۔ راہول گاندھی کے اس نئے رنگ نے مخالفین کی صفوں میں کہرام مچادیا ہے ۔ یاترا کے آغاز کے بعد سے دن بہ دن عوامی تائید اور راہول کی مقبولیت میں اضافہ کا رجحان ہے۔ عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یاترا کے مقررہ ایام میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے سوچا نہیں تھا کہ کانگریس کے یوراج پد یاترا پر نکل پڑیں گے ۔ ناراض قائدین جنہیں نظر نہ آنے والی قیادت کہتے تھے، وہ عوام کے درمیان آگئے ۔ کانگریس کو بحران سے نکالنے اور بی جے پی کے خلاف طاقتور اپوزیشن کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یاترا پر دوربینی نظر اور نگرانی رکھی جارہی ہے۔ راہول کے جوتے اور ٹی شرٹ کے علاوہ مذہبی مقامات پر حاضری کو تنازعہ کی شکل دی جارہی ہے ۔ راہول گاندھی نے اگر قیمتی جوتا اور شرٹ پہنا تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ نہرو اور اندرا گاندھی کا سیاسی وارث اگر 40 ہزار کا ٹی شرٹ پہن لے تو ہنگامہ کیوں برپا کیا گیا۔ نریندر مودی کی طرح 10 لاکھ کا قیمتی شرٹ تو نہیں پہنا اور نہ مودی کی طرح دن میں تین بار قیمتی لباس تبدیل کرتے ہیں۔ 10 لاکھ کے سوٹ کا آج تک عوام کو نہ ہی جواب دیا گیا اور نہ حساب۔ کانگریس نے خاکی چڈی کی تصویر وائرل کیا کردی سنگھ پریوار کے تمام ہمدرد آگ بگولہ ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خانکی نیکر سے بی جے پی کا کیا تعلق ہے۔ ویسے بھی آر ایس ایس نے اپنے ڈریس کوڈ میں نیکر کی جگہ پینٹ کو اختیار کیا ہے لیکن خاکی رنگ برقرار ہے۔ ہر شخص کو اپنی پسند کا رنگ اختیار کرنے سے روکا نہیں جاسکتا اور خاکی رنگ پر بی جے پی و آر ایس ایس کی اجارہ داری ، پیٹنٹ رائیٹ یعنی مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔ دراصل بھارت جوڑو سے سنگھ پریوار کی نیکر ڈھیلی ہوچکی ہے۔ یاترا جیسے جیسے آگے بڑھے گی ، بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا اور 2024 ء کے عام انتخابات میں سخت مقابلہ یقینی ہے۔ راہول گاندھی کی یاترا سے خوف طاری تھا کہ دوسری طرف اروند کجریوال نے گجرات پہنچ کر بی جے پی کے قلعہ میں سینگ لگانے کا کام کیا ہے۔ دہلی کے بعد پنجاب میں غیر متوقع کامیابی کے ذریعہ عام آدمی پارٹی نے خود کو کانگریس کی جگہ بی جے پی کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مرکز کی جانب سے ہراسانی اور مقدمات کے باوجود کجریوال گجرات میں بی جے پی کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ گجرات حکومت نے کجریوال کے دورہ کے موقع پر جس طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں، اس سے خوف صاف طور پر جھلک رہا ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ عام آدمی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی تاکہ دہلی اور پنجاب میں اقتدار پر قبضہ کیا جائے ۔ دراصل عوام مرکز میں بی جے پی کی 8 سالہ حکمرانی سے عاجز آچکے ہیں اور متبادل کا بے چینی سے انتظار ہے۔ مبصرین کے مطابق کانگریس کا استحکام اور کجریوال کی مہم سے قومی سطح پر مخالف بی جے پی محاذ کی تیاری آسان ہوجائے گی۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار اس مہم میں سرگرم ہیں تاکہ بی جے پی کے خلاف ایک سیکولر متبادل محاذ تیار کیا جائے۔ بھارت جوڑو یاترا کامیاب ہوتی ہے تو اپوزیشن جماعتیں متبادل محاذ کی قیادت کیلئے کانگریس کا رخ کریں گی۔
مساجد اور دینی مدارس پر سنگھ پریوار کی بری نظریں اب سنگین نتائج کا سبب بن رہی ہیں۔ ایک طرف تاریخی مساجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف سروے کے نام پر دینی مدارس کے وجود کو مٹانے کی سازش ہے۔ اترپردیش ، آسام اور جھارکھنڈ میں بی جے پی حکومتوں نے دینی مدارس پر بلڈوزر چلانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ ملک بھر کے دینی مدارس اس مہم کے مقابلہ کی تیاری میں تھے کہ اچانک سروے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ دینی مدارس میں سروے کا مقصد اساتذہ اورطلبہ کی تفصیلات حاصل کرنے کے علاوہ نصابی کتب اور اخراجات کیلئے عطیات کی تفصیلات حاصل کرنا ہے۔ سروے کے معاملہ میں دینی مدارس کے حوصلوں کو پست کرنے کیلئے پاور ہاؤس کو نشانہ بنایا گیا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی کے ادارہ ندوۃ العلماء کا سروے کرنے کیلئے عہدیداروں کی ٹیم پہنچ گئی ۔ پرسنل لا بورڈ جو ملک بھر میں دینی مدارس اور شریعت کے تحفظ کا ذمہ دار ہے ، خود اس کے ایک سربراہ کو نشانہ بنانے کا مقصد دیگر مدارس کے ذمہ داروں کو یہ پیام دینا ہے کہ تمہاری کیا حیثیت۔ مدارس کے سروے کے معاملہ میں کسی بھی مزاحمت کو روکنے اور خوف طاری کرنے کیلئے ندوۃ العلماء کو نشانہ بنایا گیا ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ندوۃ العلماء کے سروے پر مسلم جماعتوں ، اداروں اور قائدین پر سناٹا طاری ہے۔ اگر خاموشی اختیار کرلی گئی تو ملک کا کوئی بھی دینی مدرسہ محفوظ نہیں رہے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے کیوں نہ ہو۔ آگ لگتی ہے تو اسے فوری بجھانا پڑتا ہے ، اگر پڑوسی یہ تصور کرے کہ آگ اس کی عمارت میں نہیں لگی تو پھیلنے میں دیر نہیں لگتی۔ سروے کرنا ہی ہے تو پھر دیگر مذاہب کے اداروں کا بھی کیا جانا چاہئے ۔ اگر آر ایس ایس کی کسی شاکھا پر ہاتھ ڈالا جائے تو سارے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کو اپنے مذہبی قلعہ یعنی دینی مدارس سے جذباتی وابستگی آخر کب پیدا ہوگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو آج مولانا علی میاں جیسی قیادت کی ضرورت ہے جن کی ایک دھمکی پر اترپردیش کی حکومت نے مدارس میں سوریا نمسکار کے فیصلہ کو واپس لے لیا تھا۔ دینی مدارس کے علاوہ کاشی اور متھرا کی تاریخی مساجد اور قطب مینار کے بارے میں بھی سنگھ پریوار نے دعویداری پیش کردی ہے ۔ 1991 ء میں پارلیمنٹ میں تیار کیا گیا قانون نہ صرف حکومت بلکہ عدلیہ کی جانب سے بھی نظر انداز کردیا گیا ۔ گیان واپی مسجد کے معاملہ میں مقامی عدالت کا فیصلہ اس قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا پہلے سے موجود ہے۔ اگر فوری مزاحمت نہیں کی گئی تو قطب مینار اور جامع مسجد دہلی بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ مسلمانوں نے بابری مسجد کے معاملہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے بڑی بھول کی ہے جس کا خمیازہ گیان واپی مسجد کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد کی اراضی رام مندر کیلئے حوالے کردی اور یہ بھروسہ دلایا تھا کہ 1991 ء کے مذہبی مقامات سے متعلق قانون کا دیگر عبادت گاہوں پر اطلاق ہوگا۔ مسلمانوں نے بابری مسجد پر کیا سمجھوتہ کیا ، انہیں دیگر مساجد سے دستبرداری کے لئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ گیان واپی مسجد کے بارے میں سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت نے دیگر عبادتگاہوں کے بارے میں چیلنج کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ دراصل ملک میں ایسی قیادت نہیں جو مخالفین سے لوہا لے سکے۔ سیاسی ، سماجی اور مذہبی قیادتیں اپنے اپنے خول میں بند ہیں اور ہر کسی کو صرف اپنے مفادات کی فکر ہے۔ مسلمانوں کی بے حسی بھی ہندوستان میں اسپین جیسے حالات کا اشارہ دے رہی ہے۔ دینی مدارس اور عبادتگاہوں کیلئے نہیں تو آخر مسلمان کب جاگیں گے۔ موجودہ حالات پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
اب یہ لازم ہے کہ اعلان بغاوت کردوں
ہاتھ اس کا مری دستار تک آ پہنچا ہے