ہمارا بجاج نے ’قومی مفاد‘ کے جھٹکے دئے

,

   

ہندوستان میں خوف کے ماحول کے متعلق راہل بجاج نے بات کی تھی
نئی دہلی۔ ہمارا بجاج صدیوں سے ہندوستان کے دلوں پر قبضہ کرنے والی مقبول دھن ”ہمارا بجاج“ پھر ایک مرتبہ اتوار کے روز اپنی رفتار میں اگئی‘ اور ملک میں دوحصوں میں تقسیم رائے کی نفس پکڑلی ہے۔

ایک حصہ جو ٹرول مشین کے نام سے مشہور ہے‘ وہ سینئر صنعت کار کی باتیں ان کی زندگی کے کاروبار میں تہہ میں جانے کے لئے خود کو مصروف رکھے ہوئے ہے‘

جنھوں نے ہفتہ کے روز ملک میں پھیلاے ہوئے خوف کے ماحول کے متعلق بے باکی کے ساتھ بات کی تھی۔

مذکورہ تیکھا ردعمل جس میں یونین منسٹر س بھی شامل ہیں ممبئی میں اکنامک ٹائمز کی ایوارڈ تقریب میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بجاج نے امیت شاہ سے کہاکہ ”ہمارے اندر اعتماد نہیں ہے یہ کہ اگر ہم آپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ یہ قابل ستائش ہے“۔

اس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ توجہہ بجاج کے ماضی پر دلائی گئی‘

مذکورہ حملہ آوروں نے ان کی بے باکانہ تبصرہ کی صداقت پرسوال کھڑا کرتے ہوئے یاددلایاہے کہ جون2006میں بجاج کو بی جے پی‘ این سی پی او رشیو سینا کے مشترکہ امیدوار کے طور پر راجیہ سبھا کا امیدوار بنایاگیاتھا۔

مذکورہ ناقدین جس کادعوی ہے کہ وہ کانگریسی لیڈر دوسرے راہل کے حمایتی ہیں وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ صنعت کار نے کانگریس کے امیدوار کو پچاس ووٹوں سے اس وقت شکست دی تھی۔ اگر بجاج کو نشانہ بنانے والوں کی حمیت ختم ہوگئی ہے‘ جو سوشیل میڈیاسے ان کی حمایت کی ڈگری میں سامنے آرہی ہے۔

ایک وقت میں اہم اور مقبول کمرشیل ٹیگ لائن رہے ”ہمارا بجاج“ کے سر میک ان انڈیا کے سہرا جاتا ہے جو اپنی بے مثال ٹکنالوجی پر منحصر ہے‘ جس نے تشہیر کے پہلوؤں کو ہی تبدیل کردیاتھا۔

اتوار کے روز رات اٹھ بجے تک یہ واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت گرمی کی شدت محسوس کررہی ہے‘ جس کی وجہہ سے یہ اشارہ ملا ہے کہ اس نے ”قومفاد“ کے کاندھے سے چھوڑے گئے طاقتور توپ خانہ اور سماجی ”انضابطی اشاعت“ کے نشان کو نظر انداز کیاہے۔

یونین وزیرمالیہ نرملا ستا رامن نے بجاج کو دئے گئے شاہ کے جواب کا ایک ویڈیوٹوئٹ کیا اور اس مزید لکھا کہ”ہوم منسٹر امیت شاہ نے جس طرح شری راہل بجاج نے مسائل پیش کئے ہیں کا جواب دیا۔

سوالات/تنقیدیں کہے گئے اور جوابات/پیشکش بھی ہوئی۔کسی کے اپنے تاثرات کو پھیلانے کے بجائے ایک جواب کی مانگ بہتر راستہ ہے جس میں وہ بات قومی مفاد کے لئے نقصاندہ ہے“۔ مذکورہ ردعمل بے رحمانہ تھا۔

ایک ٹوئٹر صارف نے پوسٹ کیاکہ ”اگر تمہارے دماغ میں قومی مفاد ہوتا‘ تو آپ اسی وقت استعفیٰ دیدیتی محترمہ سیتارامن صاحبہ“جس کا اشارہ معیشت کے تباہی کی طرف تھا۔

ایک او رمنسٹر نے غیر دانستہ یا بصورت دیگر ایمرجنسی کے دور کی طرف اشارہ کیا۔

یونین منسٹر ہردیپ پوری نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ ”معاشرے میں خوف وہراسانی کے ماحول سے انکار کیا اور کہاکہ مگر سماج میں کچھ ایسے شہری بھی ہیں جو حکومت پر جھوٹی سونچ عائد کرتے ہیں تاکہ خوف کی ایک حکمرانی کوپیش کریں‘ یہ ایسی سوسائٹی ہے جس کا معیار غیر مناسب سنجیدگی کا ہے“۔

جس پر ایک صارف نے ردعمل پیش کرتے ہوئے کہاکہ ”پچھلی بار ایک حکومت نے ملک میں نظام وضبط کی بات کی تھی‘ ہم نے اس کے متعلق ایمرجنسی کا اعلان کردیاتھا“۔

ابھی منسٹر کی تعیناتی تھی‘ ذمہ داری امیت مالویہ نے لے لی جو ’بی جے پی کے قومی انفارمیشن او رٹکنالوجی کے انچارج ہیں“۔جنھوں نے ٹوئٹر پر اپنی ذاتی رائے رکھی۔

ایسا لگتا ہے کہ بجاج نے دن بھر انٹرنٹ پر بجاج کو کانگریس کا درباری ثابت کرنے والی لنکس کی تلاش میں لگادیا ہے۔

ہفتہ کی شام بجاج کے بات کرنے کے ساتھ ہی مالویہ نے فائیرنگ شروع کردی۔

انہوں نے ٹوئٹ کیاکہ”ان دنوں ماحول اس قدر خوف کا ہے کہ میڈیا دن رات حکومت کے سربراہان پرمیڈیاتنقید کررہا ہے۔ حکومت کے خلاف مضامین لکھے جارہے ہیں اور برسراقتدار حکمرانوں کے لئے موت مانگ رہے ہیں اور صنعت سوال پوچھ رہے ہیں پھر خوف کہاں پر ہے؟“۔ائ

ی ٹی سل کی ٹرول ٹیم نے اس کے بعد دھڑا دھڑ بجاج کی ان تصویروں کو شیئر کرتے ہوئے خوف کے متعلق سوال کیاکہ ’خوف کہاں پر ہے‘ جس کے ذریعہ بجاج کو کانگریس کے درباری کے طور پر پیش کیاجاسکے۔