ہماری بے حسی بے بسی

   

پی چدمبرم
عالمی سطح کی اہم زبانوں میں فرانسیسی یا فرنچ زبان کا شمار ہوتا ہے۔ اس زبان کا ایک لفظ
“Sangfroid”
ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اس لفظ کا معنی و مطلب کچھ اس طرح ہے ’’مشکل حالات میں پرسکون رہنے کی قابلیت یا صلاحیت‘‘۔ ہندوستان نے لفظ
“Sangfroid”
کے معاملے میں فرانسیسوں کو بھی پچھاڑ دیا ہے، انہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہم یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جس وقت وزیراعظم نے کورونا وائرس سے پھیلی وباء پر قابو پانے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، تب لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے مزدور اپنے آبائی مقامات جانے کیلئے سڑکوں پر نکل پڑے۔ ان کے پاس حمل و نقل کے کوئی ذرائع نہیں تھے، جیب میں پیسہ نہیں اور بستے میں کھانا (غذائی اشیاء، ادویات نہیں تھے اور نہ ہی ان کی مدد کرنے والا کوئی تھا) وہ ہزاروں کیلومیٹر دور واقع اپنے مواضعات اور ٹاؤنس کیلئے پیدل ہی نکل پڑے تھے۔ اس وقت ہماری حکومت نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا، شاید دنیا کا کوئی بھی ملک اس طرح کی بے حسی کا مظاہرہ کرے گا۔ ہندوستان کو ایک ترقی پذیر ملک کہا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہسپتالوں کے باہر بیماروں کی جو طویل قطاریں دیکھی گئیں، شاید ہی وہ کسی اور ملک میں دیکھنے میں آئی ہوں۔ اسی طرح ہمارے ملک نے تاحال 4 لاکھ 5 ہزار 967 اموات کا مشاہدہ کیا (سمجھا جاتا ہے کہ اس سے 4 تا 5 گنازیادہ اموات ہوئی ہیں) اور ہندوستان کے بجائے کسی اور ملک میں اس قدر کثیر تعداد میں لوگ مارے جاتے تو وہاں جو غم منایا جاتا، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس قدر زیادہ اموات کے باوجود عوام میں کوئی برہمی نہیں دیکھی گئی۔ اسی طرح ہندوستان کے سواء کسی اور ملک میں اس طرح کے خطرناک حالات میں غریب خاندانوں کے لاکھوں کروڑوں بچے آن لائن لرننگ سے محروم نہ ہوئے ۔ غرض ہم ہندوستانیوں نے اس مشکل حالات کا بڑے صبر آزما انداز میں مقابلہ کیا۔ ہر تباہی و بربادی پر پرسکون رہے اور حکومت نے بھی غیرمعمولی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں آپ صبر آزما واقعات میں شمار کرسکتے ہیں اور ہندوستانیوں کے
“Sangfroid”
کو سلام کرسکتے ہیں، کیونکہ ہندوستانیوں نے حکومتوں کی مجرمانہ غفلت و لاپرواہی کے باوجود مشکل حالات میں پرسکون رہتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتے ہیں۔
ذمہ داریوں سے پہلوتہی
بلاآخر وزیر لیبر و ایمپلائمنٹ نے استعفی دے دیا، وزیر صحت بھی مستعفی ہوگئے، وزیر تعلیم کو بھی استعفی لے کر رخصت کردیا گیا، لیکن کسی بھی وزیر نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ نہیں دیا۔ کسی نے بھی رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کو پسند نہیں کیا۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ان لوگوں نے کس طرح 2020ء اور 2021ء میں عوام پر انتظامی بوجھ ڈالا تھا۔ بلکہ ان لوگوں کو وزیراعظم نے مستعفی کروایا۔ اسی لئے جب تحقیقی صحافت کے ایک فرانسیسی جریدے ’’میڈیا پارٹ‘‘ نے پچھلے ہفتہ ایک رپورٹ شائع کی تھی اور اس سے پہلے اس نے اپریل 2021ء میں بھی رافیل لڑاکا طیارے معاملت سے متعلق ایک رپورٹ منظر عام پر لائی تھی اس کے باوجود دارالحکومت نئی دہلی میں کسی کو جنبش تک نہیں ہوئی۔ تھوڑی بہت ہلچل تک نہیں دکھائی دی اور نہ ہی سیاسی گلیاروں میں چہ میگوئیاں ہوئیں۔ مجھے تو یہ بھی شبہ ہے کہ وزارت دفاع میں کسی نے اس رپورٹ کے بارے میں کچھ بات کی ہوگی یا سوالات اٹھائے ہوں گے اور کسی قسم کی پریشانی کا اظہار کیا ہوگا۔ وزیر دفاع نے بھی کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، جبکہ سابق وزیر فینانس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’’میڈیا پارٹ‘‘ کی اسٹوری سابقہ وزارتی بیانات کے متضاد ہے، کسی اور جانب اپنا رُخ کرلیا، یہی تو “Sangfroid” ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہی تو بے حسی ہے۔ ’’میڈیا پارٹ‘‘ نے اپریل میں تین حصوں پر مشتمل اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ فرانس کی انسداد رشوت ستانی ایجنسی (اے ایف اے) نے اس بات کے ثبوت اور شواہد پائے ہیں کہ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ڈسالٹ نے ہندوستان کے ساتھ رافیل اور دوسرے دفاعی معاملے میں نامعلوم درمیانی شخصی کو ایک ملین یورو بطور رشوت دینے سے اتفاق کرلیا تھا اور ڈسالٹ نے ڈیفائز سلیوشنس نامی ایک کمپنی کو پانچ لاکھ 98 ہزار 925 یورو ادا کئے تھے۔ (یہ کیسے مناسب ہے) یہاں تک کہ اس مرحلے پر بھی اسی طرح کا الزام عائد کیا جاسکتا تھا (’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے شمارہ مورخہ 2021ء میں ’’رافیل کا بھوت پھر منظر عام پر‘‘ کے زیرعنوان مضمون پڑھئے۔ (’’میڈیا پارٹ‘‘ کے انکشافات کو فرانس میں بہت سنجیدگی سے لیا گیا لیکن ہندوستان میں ہر کسی نے لفظ “Sangfroid” کو اپنے میں جذب کرلیا یعنی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ 2012ء میں ایک سرکاری ٹنڈر طلب کیا گیا تھا اور ڈسالٹ کو 126 رافیل طیارے ہندوستانی فضائیہ کو سربراہ کرنے کیلئے منتخب کیا گیا جن میں سے 18 فوری طور پر قابل استعمال تھے اور باقی 108 ہندوستان میں اسمبل کئے جانے والے تھے۔ اپریل میں پیرس کے مقام پر سینئر ہندوستانی عہدیداروں نے وزیراعظم کے ہمراہ ایک سرکاری دورہ کے موقع پر ڈسالٹ اور ایچ اے ایل کے درمیان معاہدہ کی توثیق کردی۔ 10 اپریل کو وزیراعظم مودی نے پیرس میں ڈسالٹ ۔ ایچ اے ایل معاہدہ کا اعلان کیا۔ 9 نومبر کو حکمت عملی کا ایک معاہدہ ڈسالٹ اور خانگی ہندوستانی کمپنی کے درمیان طئے پایا۔ ڈسالٹ پیداوار، ٹیکنالوجی، پیداوار کی معلومات اور ان میں جدید ترین تبدیلیوں سے ہندوستان کو واقف کروانے کی ذمہ دار تھی۔ 28 نومبر کو ڈسالٹ اور خانگی ہندوستانی کمپنی نے ایک ایک حصہ داری معاہدہ پر دستخط کئے اور دونوں کمپنیوں نے عہد کیا کہ وہ 159 ملین ایک فیصد حصص سرمایہ داری پر ادا کریں گے اور خانگی کمپنی 10 ملین ادا کرکے 49% حصص پر قبضہ کرلے گی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، وہ اس بارے میں بالکل خاموش رہے حالانکہ ان کی خاموشی معنی خیز تھی۔ معاہدہ فرانسیسی زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس زبان کا ہر لفظ بڑی سنجیدگی کے ساتھ تحریر کیا جاتا ہے اور ایک لفظ کے معنی غیرجذباتی انداز میں طئے شدہ معاہدہ بھی ہوتے ہیں۔