ہماری معیشت ۔ پرانی نوکریوں میں بھی کمی

   

رویش کمار

ہندوستان کا درجہ معیشت کی جسامت کے معاملے میں گھٹ چکا ہے۔ 2018ء میں انڈیا نمبر پانچ پر تھا، اب اس کا نمبر سات آیا ہے۔ بزنس اسٹانڈرڈ مورخہ 31 جولائی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ 2018ء میں ہندوستان نے برطانیہ اور فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا رینک حاصل کیا تھا۔ 2017ء میں ہندوستان کی معیشت کی جسامت 2.65 ٹریلین ڈالر تھی۔ برطانیہ کی 2.64 ٹریلین ڈالر اور فرانس کی 2.59 ٹریلین ڈالر تھی۔ اب یو کے اکنامی کی جسامت 2.82 ٹریلین اور فرانس کی 2.78 ٹریلین ڈالر ہے۔ ہندوستان کی معیشت 2.73 ٹریلین ڈالر تک پہنچی ہے۔ اور اسے نمبر سات مقام حاصل ہوا ہے۔
آٹوموٹیو کامپوننٹ مینوفیکچررس اسوسی ایشن نے کہا ہے کہ اگر آٹو سیکٹر میں گراوٹ یونہی جاری رہی تو ایک ملین افراد کے جابس جلد ہی کھو جائیں گے۔ اس شعبے میں 50 لاکھ افراد کا روزگار ہے۔ یہ شعبہ آٹو پارٹس بنانے کا کام کرتا ہے۔ اس سوال پر کہ آیا نوکریوں سے برخاستگی شروع ہوچکی، اسوسی ایشن نے جواب دیا کہ اس سیکٹر میں 70 فی صد لوگ کنٹراکٹس پر کام کرتے ہیں۔ جب طلب ہوتی ہے تو جاب حاصل ہوتا ہے۔ آپ کو اس جواب سے واضح اشارہ حاصل ہوتا ہے۔ماروتی کمپنی کی فروخت میں جولائی میں 33.5 فی صد کمی ہوئی۔ جون میں کور سیکٹر کی بڑھوتری میں چار سال کی سب سے کم قدر 0.2 فی صد رہی۔ اس سیکٹر کی شرح ترقی مئی میں 4.3 فی صد تھی۔ ایک ماہ میں 4.3 سے 0.2 فی صد کا مطلب ہے کہ فیکٹریوں میں مندی ہے۔ یہ 50 ماہ کی سب سے زیادہ گراوٹ ہے۔ کوئلہ، خام تیل، قدرتی گیس، ریفائنری پراڈکٹس، فرٹیلائزرس، فولاد، سیمنٹ اور الیکٹریسٹی کور سیکٹرس کہے جاتے ہیں۔

انڈین آئیل کا مجموعی نفع 47 فی صد کم ہوگیا۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے ماہ جولائی میں انڈین اسٹاک مارکیٹ سے 12,000 کروڑ روپئے واپس لے لئے۔ یہ گزشتہ 9 ماہ میں سب سے زیادہ دستبرداری ہے۔ اکٹوبر 2018ء میں 28,921 کروڑ روپئے نکال لئے گئے تھے۔ ٹیکس کے علاوہ یہ بھی وجہ ہے کہ ان سرمایہ کاروں کا احساس ہے کہ ہندوستان کی معیشت کی رفتار جمود کی شکار ہے۔ کارپوریٹ کی کمائی میں کمی ہوئی ہے۔ کنزیومرس کم خریداری کررہے ہیں۔
ہورائزن آنند نے ویب سائٹ ’منی کنٹرول‘ پر رپورٹ پیش کی ہے۔ جولائی میں اسٹاک مارکیٹ کا پرفارمنس 2002ء سے پہلی مرتبہ اس قدر خراب رہا ہے۔ 17 میں پہلی بار حساس اشاریہ جولائی میں 5.68 فی صد گرگیا۔ سنسیکس میں 500 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ 50 فی صد کمپنیوں کے شیئرس کی قدر میں دو ہندسی گراوٹ آئی ہے۔بی ایس این ایل ماہ جولائی کیلئے تنخواہ نہیں دے سکا، بتایا گیا کہ اگست میں دے گا۔ تنخواہ 31 جولائی کو ملنا تھا، لیکن نہیں ملی۔ چیئرمین نے کہا کہ اگست کے پہلے ہفتے میں مل جائے گی۔ بی ایس این ایل میں 1.76 لاکھ ملازمین ہیں۔

مودی حکومت کے دور میں معیشت خواب کے مانند معلوم ہورہی ہے۔ ہندوستان میں ارب پتی افراد کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ یہ تبدیلی اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کے سبب آئی ہے۔ 2018ء میں اس طرح کے پروموٹرس کی تعداد 90 تھی، جو ابھی تک سب سے زیادہ تعداد تھی۔ لیکن اب یہ گھٹ کر 71 ہوچکی ہے۔ اُن کے جملہ اثاثہ جات میں بھی کمی آئی۔ گزشتہ مارچ یہ قدر 353 بلین ڈالر تھی، جو گھٹ کر 326 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔
اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس نے بیان کیا ہے کہ 2018ء میں بی جے پی کے منقولہ رئیل اسٹیٹ میں 22 فی صد کا اضافہ ہوا۔ کانگریس کے معاملے میں 15 فی صد کمی ہوئی۔ معیشت اوپر اور نیچے ہوتی رہتی ہے۔ اس میں فکرمندی کی کوئی ضرورت نہیں۔ کل پھر بہتر ہوجائے گی۔ نیوز چیانلوں کے پروپگنڈے میں کھوجائیے۔ اطمینان رکھئے کہ ہندو مسلم کے مزید موضوعات اُبھر آئیں گے۔ نسلوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے برباد کیا جارہا ہے، لیکن (سیاست دانوں کو) فائدہ یہ ہے کہ عوام جاب کے تعلق سے سوالات نہیں کررہے ہیں۔

کئی لوگ لکھ رہے ہیں کہ معیشت کی موجودہ حالت کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم ڈسکوری چیانل کے کسی شو میں مصروف ہیں۔ یہ الزام درست نہیں ہے۔ وزیراعظم نوٹ بندی کے وقت ڈسکوری چیانل کیلئے شوٹنگ نہیں کررہے تھے۔ وہ دن اور رات ایک کررہے ہیں، اس کے بعد ہی یہ صورتحال ہے۔ 5 سال میں معیشت کے تعلق سے بہت کچھ بولا جاتا رہا۔ اس کام کا نتیجہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وزیراعظم نے شوٹنگ کیلئے حامی بھرتے ہوئے اچھا کیا۔ کم از کم کچھ تو کام ڈسکوری چیانل کے بہانے کیا گیا ہے۔ اس شو کی ریٹنگ بڑھے گی۔ اس کی مقبولیت کا چرچا ہوگا۔ہندوستان کے نوجوان لوگ دنیا کے اولین نوجوان ہیں جنھوں نے روزگار کا سوال چھوڑ دیا ہے۔ وزیراعظم اُس روز شوٹنگ کررہے تھے جب انھیں پلوامہ کے نام پر ووٹ دیا گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ راہول گاندھی نے یہ غلطی نہیں کی، ورنہ نیوز چیانلز واویلا کرتے اور آج تک اس بارے میں رپورٹنگ ہوتی۔ میڈیا سے درخواست ہے کہ اپوزیشن سے بھی ممکنہ حد تک سوالات پوچھیں تاکہ حکومت کو مسئلہ نہ ہو۔
ملازمین کی نوکریوں سے برخاستگی کی نیوز نہ پھیلائیں کیونکہ بے شمار لوگ سرکاری امتحانات تحریر کررہے ہیں۔ یہ ملازمین بھی ہندو مسلم کا سوال پوچھتے ہیں، یہ ضمانت ہے کہ وہ اپنا دکھ بھول جائیں گے۔ کروڑہا لوگوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے، کروڑہا لوگ خاموش ہیں۔ 10 لاکھ افراد کا کام چھینا گیا ہے۔ معلوم نہیں اور کتنے لوگ اس معاملے میں پھنسے ہیں۔ یہ لوگوں نے آگے آکر عوام کو کھل کر کچھ نہیں بتایا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بزنس نہ ہو تو فیس بک سے دور ہوجائیں گے، یا عوام کام پر جانے لگیں تو ٹی وی کا مشاہدہ چھوڑ دیں گے۔

بہرحال جو کچھ بھی ہو ، مایوسی کی بات نہیں۔ اچھا وقت بھی آئے گا۔ ملک کیلئے فی الحال جابس پیدا کرنے کی اہمیت ہے۔ آپ کو گھر میں فیملی کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنے کا مزید موقع ملے گا۔ آپ کو مثبت احساس ہوگا۔ اگر کوئی مزید پوچھے کہ کیوں آپ گھر میں بیٹھے ہو، کیوں مودی حکومت پر تنقید کرتے ہو، تو اُلٹا سوال کیجئے کہ راہول گاندھی کے تعلق سے کیا رائے ہے۔ کیا کانگریس کا موقف درست ہے؟ یقین ہے، وہ خاموش ہوجائے گا۔
ravish@ndtv.com