ہمارے آج کے سیاستداں اور ہم

   

غضنفر علی خان
دنیا نے بڑی ترقی کرلی ہے اور ہندوستان بھی ایک مشرقی ملک کی حیثیت سے زمانہ کے ساتھ چل رہا ہے ۔ جمہوریت ہمارے لئے ایک نیا مرحلہ تھا لیکن 71 سال کے بعد ہم بھی ایک کامیاب جمہو ری ملک بناچکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جبکہ ہمارے قائدین نہایت دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ کام کیا کرتے تھے، ان میں ملک کی محبت بہت زیادہ تھی ، وہ کسی عہدے کیلئے اپنے دل میں کوئی لالچ نہیں رکھتے تھے۔ انہیں صرف اس بات کی خواہش تھی کہ ہندوستان ہر اعتبار سے دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں شامل ہوجائے ۔ ان بزرگ لیڈرس میں کئی نام شامل ہیں جن میں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، سب ہی تھے، نہ تو ان میں کوئی مسابقت تھی اور ایک دوسرے پر رکیک حملے کیا کرتے تھے بلکہ آپس میں باہمی احترام و ادب تھا ۔ صرف ایک ہی مقصد ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر نو ان کا مقید تھا۔ 1947 ء کے بعد جب ملک آزاد ہوا تو پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم منتخب ہوئے ، جب کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو پنڈت جی نے ایک کاغذ پر اپنی کابینہ کے وزراء کے نام لکھے اور کابینہ بن گئی ۔ اس وقت کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوا یہ وہ زمانہ تھا جبکہ آزای کا سورج طلوع ہوا تھا اور دنیا بھر کے لوگ ہندوستان کے تعلق سے مختلف اندیشے ظاہر کر رہے تھے، سب سے اہم سوال یہ درپیش تھا کہ کس سیاسی نظریہ کے تحت ملک کام کرے، جمہوریت تو طرز حکومت بنا لیکن سوال یہ تھا کہ ہمارے اس عجیب و غریب ملک میں جہاں کئی تہذیبیں، کئی زبانیں ، کئی عقائد و مذاہب ہوں وہاں کونسا نظریہ لاگو کیا جائے ۔ غالب اکثریت نے سیکولرازم کے نظریہ کو فوقیت دی اور ہم ہندوستانی سیکولر جمہوریت کے نظریہ کو اپناکر دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیئے جو اب تک جاری و ساری ہے ۔ البتہ پچھلے کچھ برسوں سے ایک نئی ہلچل شروع ہوئی جس میں اس نظریہ کو عدم مستحکم کرنے کی کوشش شروع ہوئی ۔ ویسے بھی آزادی کی تحریک کے دوران کچھ لوگ انتہائی کم تعداد میں تھے جو سیکولرازم کو دل و دماغ سے تسلیم نہیں کر تے تھے، اتفاق کی بات ہے آج وہی مخالف سیکولرازم طاقتیں اقتدار پر آگئی ہیں۔ نظریہ کے علاوہ اور باتوں میں بھی دور بدل گیا ہے ، وہ جو بغیر کسی ذاتی مقصد و مفاد صرف ملک و عوام کی خدمت انجام دینا چاہتے تھے ، وہ پیڑی ختم ہوگئی ۔ سیاستدانوں کی نئی نسل میدان میں اتر آئی ہے۔ اس نسل کے لوگوں میں آج کے سیاستداں بھی شامل ہیں جن کے ذہن میں کوئی واضح تصور نہیں ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اقتدار کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ ان کے کوئی اخلاقی اُصول و ضوابط نہیں ہے ۔ ان میں ملک و قوم سے زیادہ اپنی ذات اپنے مفاد کو ترجیح دینے کا رجحان پیدا ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ اس رجحان نے ساری اعلیٰ سیاسی اقدار کو ایک اژدھا کی طرح نگلنا شروع کردیا ۔ اب نہ تو سیاسی پارٹیوں میں کوئی نظریہ رہا اور نہ کوئی اصول ۔ مثال کے طورپر دیکھئے کہ کس طرح ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد ہمارے منتخبہ ارکان اسمبلی بڑے آسانی کے ساتھ اس پارٹی سے رغبت بڑھالیتے ہیں اوراس میں شامل ہوکر اقتدار پر فائز ہوجاتے ہیں، اس معاملہ میں کوئی پارٹی کسی دوسری پارٹی سے کم نہیں ہے ۔

اقتدار واحد مقصد ہے اور جہاں کہیں اقتدار ہوتا ہے ، اسی پارٹی کی طرف جوق در جوق عوام کے یہ نام نہاد اور منتخبہ لیڈرس بڑی آسانی کے ساتھ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ خود اپنی پار ٹی کے نظر یات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کوئی سیاسی فکر نہیں ہے اور نہ کوئی نظریہ کے قائل ہیں۔ ان دنوں بنگلورو اس کی تازہ مثال ہے جہاں کانگریس اور سابق وزیراعظم ہند دیوے گوڑا کی پارٹی نے اچھی خاصی مضبوط حکومت بنائی ہے جہاں بی جے پی بھی کافی مضبوط ہے، ان پارٹیوں میں انحراف کا ایک زلزلہ آیا ہوا ہے ۔ کانگریس کے 16 ارکان بی جے پی میں شامل ہوگئے جس سے وہاں کی مخلوط حکومت متزلزل ہوگئی اور اب ٹوٹنے کے قریب ہوگئی ہے ، ان 16 ارکان کو مبینہ طور پر بی جے پی کے لیڈرس خصوصی طیارے کے ذریعہ بنگلورو سے ممبئی منتقل کردیئے ہیں ۔ یہ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ 134 سالہ قدیم کانگریس پارٹی میں آخر منحرف ہونے والے ارکان نے اچانک کیا خرابی محسوس کی کہ وہ اس سے سارے رشتہ و ناطے توڑ کر بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ کیا اچانک بی جے پی ان کی نظروں میں کانگریس سے زیادہ مفید پارٹی بن گئی ہے ، دونوں باتوں کا کوئی وجود نہیں ہے ، نہ تو کانگریس کے نظریات میں کوئی فرق ہوا ہے اور نہ بی جے پی میں اچانک کوئی خوبی پیدا ہوگئی ہے ، پھر آخر اس بے وفائی کی کیا وجہ ہے ۔ کیا اس لئے انحراف ہوا ہے کہ آج کانگریس روبہ زوال ہے اور مستقبل قریب میں ایسے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے کہ اقتدار کی دیوی کانگریس پر مہربان ہوگی۔ بی جے پی کے پاس کوئی نظریہ اس کے سوا نہیں ہے کہ ملک میں ہندو راشٹر قائم کیا جائے۔ اس کی مسلم اقلیت سے دشمنی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ۔ کانگریس نے بھی ماضی میں دوسری پارٹیوں کی حکومت کو توڑنے کیلئے اسی قسم کی انحراف پسندی کو اپنا ہتھیار بنایا ، غرض یہ کہ صرف اقتدار کی لالچ آج کے سیاستدانوں کا خاص وطیرہ بن گیا ہے ۔ جنگ آزادی میں جن وطن دوست سورماؤں نے کام کیا اور حصہ لیا وہ تو ہماری صفوں سے اُٹھ گئے ہیں اوراب آج کی نسل ان سیاستدانوں کی کوئی اصول نہیں رکھتی اور نہ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کسی وقت اپنے بزرگوں کے طرز عمل کو یہ نسل اختیار کرے گی ۔ اب صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبالے کر‘‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک تابناک اور قابل تقلید نمونہ تھے ۔ اب تو صرف یاد رفتگان باقی رہ گئی ہے ، ہر جماعت کسی نہ کسی حد تک اس برائی کی شکار ہے ، سیاست ایک گندہ کھیل بن گئی ہے۔ اس ماحول میں صرف کمیونسٹ پارٹیوں کو اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کبھی انحراف پسندی کو فروغ نہیں دیا ۔ ایک واقعہ ایسا ضرور ہوا کہ ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی میں خود دو گروۂ ہوچکے تھے، مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ان کے نام ہیں لیکن فی الواقعی کمیونزم سے ان دونوں گروپ نے کبھی انحراف نہیں کیا وہ آج بھی اشتراکی نظریہ کے قائل ہیں ۔ ان کو چھوڑ کر ہر سیاسی پارٹی خواہ وہ کل ہند سطح کی ہو یا علاقائی سطح کی ہو انحراف اور اپنے نظریات کو ترک کر کے مثالیں قائم کی ہیں کہ جن کے بارے میں سوچنے پر صرف کوفت اور غم و غصہ ہی آتا ہے ۔ آج بی جے پی مختلف دہائیوں میں جن کی تعداد بہت کم ہے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہیں، انہیں گرانے کی جان توڑ کوشش کر رہی ہے ۔ چنانچہ گوا اس کی ایک بھرپور مثال ہے اور شمالی ہندمیں راجستھان اور مدھیہ پردیش بی جے پی کے نشانہ پر ہیں ، جہاں بی جے پی سیاسی عدم استحکام پیدا کر رہی ہے ۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومتیں ضرور ہیں لیکن ان کا عوامی موقف مضبوط نہیں ہے اور یہاں حکومت کو گرانے کا کام بی جے پی کے لئے مشکل نہیں ہوگا ۔ اب یہ کانگریس کے لئے فکرمندی کا مسئلہ ہے کہ وہ ان دونوں دہائیوں میں اپنے قلعہ کی حفاظت کے حصاروں میں کوئی شگاف پیدا نہ ہونے دے لیکن وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کانگریس اپنے اقتدار کے قلعہ کو آسانی سے محفوظ رکھ سکے گی کیونکہ انحراف پسندی کیلئے کوئی جاندار قانون نہیں ہے ، صرف اتنی پا بندی ہے کہ کسی جماعت کے ارکان کی ایک تہائی تعداد اگر انحراف کرتی ہے تو اس کو اس کی آزادی حاصل ہے ۔ آج کل یہ تعداد بڑی اسانی سے حاصل کی جاسکتی ہے ، عہدوںکا لالچ ، دولت کی ریل پیل اور اقتدار کی ہوس ایک تہائی تعداد کو منحرف کرنے کے لئے بہت کافی ہے بلکہ اگر کہیں ایسا ہوجائے کہ ساری پارٹی اپ نا نام بدل کر برسر اقتدار پارٹی میں شامل ہوجائے تو قطعی حیرت کی بات نہیں ہے۔