ہمارے دن کی شروعات پولیس اسٹیشن کی گیٹ سے ہوتی ہے‘ دس بجے رات کو ہم چلے جاتے ہیں‘ دل کو اذیت پہنچنے والا وقت تھا۔

,

   

سولہا سال کی عمر کے دو لڑکے جنھیں کشمیر میں دشمن قانون پی ایس اے کے تحت محروس رکھا گیاتھا ان کی فیملی کے لوگوں کو اپنے بچوں کو تلاش کرنے اور گھر واپس لانے کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے ”صدموں“ کو یاد کیا

سری نگر۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے مذکورہ سولہہ سال کی لڑکے جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے تحت گرفتار کرلیاگیاتھا کی رہائی کے ایک روز بعد وہ اپنی فیملی کے بھیڑ او ربکریوں کو چرانے کے لئے لے کر گھر کے باہر گیا۔

اس کی بات کی بات چیت اس کے متعلق تھی کہ ان کا بیٹا بے قصور ہے۔ اس روز جس نے دن 22اگست کی رات پولیس پہلی مرتبہ ان کے گھر ائے تھی۔ انہوں مزیدکہاکہ ”ہم مزدور پیشہ لوگ ہیں جو سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اب بھی ہمارا بیٹا جیل کی صعوبتیں جھیل رہا ہے۔

کسی بھی معاملہ میں اس کوکوئی رول نہیں ہے“۔ ستمبر30کے روز جب گھر والوں نے ثابت کیاکہ لڑکی 16کا تھا اور پولیس کے دعوی کے مطابق22سال کا نہیں ہے‘جموں کشمیر انتظامیہ نے جانکاری دی ہے کہ مذکورہ ہائی کورٹ نے ان کے خلاف عائد پی ایس اے ہٹالیا۔ محروس کئے جانے کے ایک ماہ بعد وہ گھر واپس لوٹا۔

ان کے دونوں والدین اورجنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا ایک او رلڑکا جس کے خلاف بھی پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیاگیاتھا کو بھی ثابت کرنا پڑا کہ وہ نابالغ ہے اور اب وہ باہر ہے‘نے یہ کہاکہ وہ دن نہایت تکلیف دہ تھا جب وہ اپنے بچوں کی تلاش ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔

اب تک مذکورہ پی ایس اے کشمیرمیں تین نابالغوں کے اوپر سے پی ایس اے ہٹایاگیا ہے‘ جب ان کے گھر والے ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے۔ چوتھا معاملہ میں عدالت نے جانچ کا حکم دیاہے۔

جو اٹھارہ یا اس سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں انہیں پی ایس اے کے تحت گرفتار کیاجاسکتا ہے ہے۔

وہیں ان تینوں کے خلاف ہٹائے گئے پی ایس اے کا وقف قائم ہے‘ انہیں جس ایف ائی آر کی بنیاد پر گرفتار کیاگیا ہے وہ قانون اب بھی نافذ ہے۔ اننت ناگ میں اپنے سیب کے باغ میں کھڑ ے ہوئے دوسرے لڑکے کے والد نے پولیس اسٹیشن اور ڈپٹی سپریڈنٹ پولیس برائے اننت ناگ کے چکر کاٹنے کے متعلق بات کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ابتدائی اگست میں پولیس نے ان کے سولہا سال کے بیٹے کو چا بچوں میں سے ایک تھا کو مقامی پولیس اسٹیشن طلب کیا اور دہشت گردوں کے گروپ میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے اس کے ایک کلاس کے ساتھی کے متعلق پوچھ تاچھ کے بعد اس کا موبائیل فون چھین لیا۔۔

اگست3کے روز مذکورہ معصوم کو دوبارہ طلب کیاگیا۔ جب طلب کیاگیاتو فیملی ممبرس کے بشمول مذکورہ واد نے کہاکہ وہ اپنے بیٹے کو حوالے کرنے کے لئے گئے۔

انہوں نے بتایاکہ”مذکورہ افیسر نے وعدہ کیاتھا کہ وہ دودنوں میں ان کا بیٹا لوٹا دیں گے“۔

جب نابالغ گھر واپس نہیں لوٹا تو ان کے چچا پولیس افیسر سے ملاقات کے لئے گئے۔ انہوں نے کہاکہ ”انہوں نے ہمیں اسٹیشن ہاوز افیسر سے ملاقات کے لئے کہا“۔ مذکورہ والد سے ایس ایچ او نے کہاکہ وہ ڈی وائی ایس پی سے ملاقات کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ”تین دنوں تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ میں ڈی وائی ایس پی او رایس ایچ او دفتر کے درمیان میں چکر کاٹتا رہا۔

ہمارے دن کی شروعات پولیس اسٹیشن کی گیٹ سے ہوتی ہے‘ دس بجے رات کو ہم چلے جاتے ہیں‘ دل کو اذیت پہنچنے والا وقت تھا۔اور دن میں تین مرتبہ ہم ایسا کرتے تھے“۔