ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے

,

   

تین ریاستوں کے نتائج … مودی کا جادو یا کمزور اپوزیشن
حکومت پر سپریم کورٹ کی لگام … من مانی نہیں چلے گی

رشیدالدین
بی جے پی کو 2024 ء میں اقتدار سے بیدخل کرنے اپوزیشن کا خواب کیا پورا ہوگا ؟ شمال مشرق کی تین ریاستوں کے اسمبلی نتائج کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال گشت کر رہا ہے۔ کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتیں آئندہ لوک سبھا چناؤ کی حکمت عملی کی تیاری میں مصروف ہیں لیکن تریپورہ ، ناگا لینڈ اور میگھالیہ کے نتائج کچھ اور ہی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا ، اڈانی کمپنیوں کا زوال اور کمر توڑ مہنگائی کے باوجود بی جے پی کے غلبہ اور برتری میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نارتھ ایسٹ میں بی جے پی کی لہر اس اعتبار سے بھی باعث حیرت ہے کہ 2018 ء سے قبل ان ریاستوں میں بی جے پی کا وجود برائے نام تھا لیکن صرف 5 برسوں میں بی جے پی نے اپنے قدم جمالئے ۔ تریپورہ میں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی جبکہ ناگالینڈ میں حلیف جماعت کے ساتھ حکومت قائم ہوگی اور میگھالیہ میں برسر اقتدار نیشنل پیپلز پارٹی کی تائید کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ دار رہے گی۔ اگرچہ شمال مشرق کی یہ تینوں چھوٹی ریاستیں ہیں لیکن تینوں میں کامیابی کے ساتھ سال 2023 ء کا آغاز ہوا۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ چھوٹی ریاستیں عام طور پر مرکزی حکومت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ بھلے ہی یہ استدلال درست ہو لیکن پھر بھی بی جے پی کی مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تینوں ریاستوں میں اقتدار یا پھر اقتدار میں حصہ داری کا سہرا مودی۔امیت شاہ جوڑی کو جاتا ہے ۔ چھوٹی ریاستوں کے باوجود مودی ۔امیت شاہ نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی اور متعدد دورے کرتے ہوئے اپنی جملہ بازی سے رائے دہندوں کے دلوں کو جیت لیا۔ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں قبائل کا غلبہ ہے اور وہاں کی تہذیب و روایات ملک کے باقی حصوں سے مختلف ہیں۔ بی جے پی نے ان ریاستوں کے لئے علحدہ حکمت عملی تیار کی۔ ملک بھر میں بیف کی مخالفت لیکن نارتھ ایسٹ میں بیف کو سرکاری اجازت حاصل ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ میگھالیہ کے بی جے پی صدر نے اعلان کیا کہ وہ بیف کھاتے ہیں۔ اترپردیش ، آسام ، ہریانہ اور دیگر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بیف کے نام سے نفرت ہے اور اگر گھر کے فریج میں بیف مل جائے تو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ گاؤ رکھشکوں نے حال ہی میں راجستھان کے دو مسلم نوجوانوں کو ہریانہ میں قتل کر کے نعشوں کو جلا دیا تھا ۔ بی جے پی ریاستوں میں بیف سلاٹر روکنے قانون سازی کی جارہی ہے لیکن نارتھ ایسٹ کے بارے میں دوہرا معیار ہے۔ میگھالیہ کے بی جے پی صدر نے اعلان کیا کہ وہ خود بھی بیف کھاتے ہیں اور میگھالیہ میں بیف کھانے سے کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ یہاں کی تہذیب کا حصہ ہے ۔ اگر کوئی مسلمان بیف کی تائید میں بیان دے تو مقدمات درج ہوجاتے ہیں لیکن میگھالیہ میں کوئی اور نہیں بی جے پی صدر کے بیان پر سناٹا ہے۔ گاؤ رکھشک وہاں کیوں نہیں جاتے؟ ملک بھر کے لئے جب ایک پالیسی ہے تو پھر نارتھ ایسٹ کیلئے علحدہ کیوں؟ گوا میں بی جے پی اقتدار میں بیف کے استعمال کی کھلی اجازت ہے۔ مطلب صاف ہے کہ سیاسی فائدہ کیلئے بی جے پی کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ حتیٰ کہ اصولوں پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ بی جے پی صدر کے بیف کھانے سے متعلق بیان پر ایک چوہا بھی بل سے باہر نہیں نکلا۔ کسی گاؤ بھکت نے مذمت تک نہیں کی۔ دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار کو مسلمانوں کے بیف کھانے پر اعتراض ہے ۔ پریوار کا فرد بھلے ہی کھائے یا دوسروں کو ترغیب دے قابل قبول ہے ۔ مسلمانوں نے بارہا بی جے پی حکومت کو چیلنج کیا کہ گائے کو قومی جانور قرار دے تاکہ ذبیحہ گاؤ روکنے میں سنجیدگی کا اظہار ہو لیکن یہ ممکن اس لئے بھی نہیں ہے کہ نارتھ ایسٹ اور دیگر ریاستوں میں بیف کا استعمال عام ہے۔ خیر، گفتگو تین ریاستوں کے نتائج پر ہورہی تھی۔ بی جے پی کو 2024 ء میں مرکز میں ہیٹ ٹرک کے لئے چھوٹی ریاستوں کے نتائج بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔ تازہ ترین نتائج نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حوصلوں کو بلند کرنے کا کام کیا ہے ۔ 2023 ء بی جے پی کے لئے نیک شگون ثابت ہوا۔ جاریہ سال ملک کی 6 اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہیں جن میں کرناٹک ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش ، میزورم ، راجستھان اور تلنگانہ شامل ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس کی دو، دو زیر اقتدار ریاستوں میں چناوی نتائج کو لوک سبھا کا سیمی فائنل بھی کہا جاسکتا ہے ۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اقتدار کو بچانے میں کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو لوک سبھا میں چناؤ میں بہتر مظاہرہ کی امید کی جائے گی۔ 2024 ء میں لوک سبھا چناؤ کے علاوہ 7 ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں گے جن میں آندھراپردیش ، مہاراشٹرا ، ہریانہ ، اڈیشہ ، جھارکھنڈ ، اروناچل پردیش اور سکم شامل ہیں۔ ملک میں نریندر مودی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ 2014 ء کے بعد سے نوٹ بندی ، مہنگائی اور دیگر مخالف عوام فیصلوں اورتازہ ترین اڈانی اسکام کے باوجود بی جے پی کی کامیابی کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن پر عوام کو مکمل اعتماد نہیں ہے۔منتشر اپوزیشن کا فائدہ بی جے پی کو ہورہا ہے ۔ راہول گاندھی بھلے ہی محنت کر رہے ہیں ۔ کنیا کماری سے کشمیر تک پد یاترا کی اور بی جے پی کے نفرت کے ایجنڈہ کو عوام کے روبرو رکھا ۔ باوجود اس کے وہ عوام کی نظروں میں مودی کے متبادل کے طور پر نہیں ابھر پائے۔ تازہ نتائج کے بعد اپوزیشن کو اپنی صفوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی ، کمزور اپوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پھر ایک مرتبہ عدلیہ کی بالادستی کو ثابت کرتے ہوئے ملک کو یہ پیام دیا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے اور جمہوری اور دستوری اداروں کی کارکردگی پر اس کی نظر ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا اور اڈانی معاملہ میں دو تاریخ ساز فیصلے سنائے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بارے میں پانچ رکنی دستوری بنچ نے سی بی آئی ڈائرکٹر کی طرح تین رکنی پیانل کی ہدایت دی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرس کے تقرر کے معاملہ میں مرکزی حکومت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے عہدیداروں کو مقرر کرتی رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن پر حالیہ عرصہ میں جانبداری کا الزام عائد کیا جانے لگا ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ایسے وقت آیا جب الیکشن کمیشن نے کئی معاملات میں مودی حکومت کے اشاروں پر کام کیا۔ دستوری بنچ نے ہدایت دی کہ چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرس کے تقرر کیلئے تین رکنی پیانل فیصلہ کرے جس میں وزیراعظم ، لوک سبھا میں قائد اپوزیشن اورچیف جسٹس آف انڈیا شامل رہیں ۔ 2024 ء ان عام انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مودی حکومت کے لئے ایک دھکہ ہے ۔ گزشتہ دنوں ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیا اور تقرر سے ایک دن قبل انہوں نے سیول سرویسز سے رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کرلی۔ دستوری بنچ نے ارون گوئل کے تقرر کی فائل طلب کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ حکومت نے بجلی کی تیزی سے فائل کو کلیئرنس دی ہے۔ دستوری بنچ نے واضح کیا کہ جمہوریت کو بچانے کیلئے الیکشن کمیشن کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ ایک اور فیصلہ میں سپریم کورٹ نے اڈانی کمپنیوں کی بے قاعدگیوں سے متعلق ہڈن برگ کمپنی کی رپورٹ کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے جے پی سی کے مطالبہ کو مودی حکومت نے قبول نہیں کیا اور پارلیمنٹ میں نریندر مودی نے اپنی تقریر کے دوران اڈانی معاملات کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ ایسے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اپوزیشن کے موقف کی تائید ہے۔ سپریم کورٹ نے ایسے وقت یہ فیصلے سنائے ہے جب دستوری اداروں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر مودی حکومت کنٹرول کرنا چاہتی تھی۔ ججس کے تقررات کے معاملہ میں حکومت اور سپریم کورٹ میں راست ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ دو اہم فیصلوں کے ذریعہ سپریم کورٹ نے اپنی طاقت اور آزادی کا لوہا منوایا ہے۔ عدالت کے اس فیصلہ سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو سیاسی بازآبادکاری کے مرکز میں تبدیل کرنے کی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔ ملک میں جب کبھی مقننہ ، عاملہ اور حکومت بے قابو ہوگئے تو عدلیہ نے راہ راست پر لانے کا کام کیا۔ جمہوریت کے ستون کہے جانے والے مقننہ اور عاملہ کی غیر جانبداری 2014 ء کے بعد سے مشکوک ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کے موقف کی تائید میں بعض فیصلے ضرور صادر کئے لیکن تازہ ترین فیصلوں کے ذریعہ عدلیہ نے یہ پیام دیا ہے کہ اس کی نگاہ ہر کسی پر ہے ، کوئی اپنے حدود سے تجاوز کی کوشش نہ کرے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت سپریم کورٹ کے دونوں فیصلوں پر عمل آوری کس حد تک کرے گی۔ سپریم کورٹ کے بے باک موقف پر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے