ہمیں تو صرف جگانا ہے سونے والوں کو

,

   

کسانوں کی طاقت … حکومت جھکنے پر مجبور
مسلمان کب جاگیں گے … مخلص اور بے لوث قیادت ضروری

رشیدالدین
دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور بدلتے جمہوری اقدار میں طاقت کے ذریعہ ہی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے ۔ کسانوں نے عزم اور حوصلوں کا کچھ ایسا مظاہرہ پیش کیا کہ مرکزی حکومت کو جھکنا پڑا ۔ گزشتہ 7 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب نریندر مودی حکومت کو کسی احتجاج کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ یوں تو بی جے پی اقتدار میں کئی احتجاج اور ایجی ٹیشن ہوئے لیکن نریندر مودی نے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو کمزور کردیا نہیں تو کچل دیا۔ مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے آواز اٹھائی تو حکومت نے سمجھا کہ یہ احتجاج بھی دیرپا ثابت نہیں ہوگا اور دیگر احتجاجوں کی طرح کسانوں میں پھوٹ پیدا کردی جائے گی۔ حکومت کی یہ خوش فہمی مہنگی ثابت ہوئی ۔ صرف دو ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے عزم و حوصلے اور اتحاد کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ہوش اڑادیئے۔ صرف دو ریاستوں کے کسان جب سر پر کفن باندھ لیں تو اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ اگر ملک بھر کے کسان اٹھ کھڑے ہوں تو مودی اور امیت شاہ کی گھر (گجرات) واپسی ہوجائے گی۔ حقوق حاصل کرنے کی لڑائی میں کامیابی کیلئے قیادت کا بے لوث ، ایماندار ، دیانتدار اور نیک نیت ہونا ضروری ہوتا ہے اور ان اوصاف کے ساتھ قیادت کرنے والوں کے قدم کو کامیابی چومتی ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسانوں کا یہ پہلا منظم احتجاج ہے۔ ہمیں ایک جہاندیدہ سیاستداں کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو اکثر کہا کرتے تھے۔ ’’جنون ہی منزل تک پہنچاتا ہے اور عقل و خرد کی وادیوں میں گھومنے والے کبھی منزل کو نہیں پہنچ سکتے‘‘ ۔ مرکزی زرعی قوانین کے خلاف کسان 55 دن سے زائد سے دہلی کی سرحد پر خیمہ زن ہیں۔ حکومت نے احتجاج توڑنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے۔ یو پی سے مرکز کی تائید میں کسانوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جب یہ حربہ اثر انداز نہیں ہوا تو دہشت گرد اور خالصتانی کا لیبل لگاکر ڈرانے ، دھمکانے کی کوشش کی گئی ۔کسانوں نے الزامات کی پرواہ کئے بغیر مقصد اور منزل سے توجہ ہٹنے نہیں دی۔ صبر اور قربانی پر محیط احتجاج آخرکار رنگ لایا اور حکومت کو دیڑھ تا دو سال کے لئے زرعی قوانین ملتوی کرنے کا پیشکش کرنا پڑا۔ کسانوں نے حکومت کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ قوانین کی واپسی تک وہ میدان میں ڈٹے رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس اب کسانوں کی بات ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ منجمد کرنے والی سردی کے باوجود ضعیف کسانوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے حالانکہ کئی اموات واقع ہوئیں۔ گودی میڈیا نے کسانوں کے احتجاج کو بلیک آوٹ کرتے ہوئے دنیا کو بے خبر رکھنے کی سازش کی۔ کسی کے شان و گمان میں نہیں تھا کہ ناقابل تسخیر اور مغرور وزیراعظم کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے نریندر مودی کو قدم پیچھے ہٹانے پڑیں گے۔ مودی ایسی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں جسے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے اور ملک کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ ایسی مضبوط حکومت کسانوں کے آگے گڑگڑانے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ کئی کسانوں کی موت بھی احتجاجیوں کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتی۔ احتجاج کے دوران کسان قائدین نے کردار کا وہ مظاہرہ کیا جو تاریخ اسلام میں مسلمانوں نے پیش کیا تھا۔ حکومت سے جب کبھی بھی مذاکرات ہوئے کسان قائدین حکومت کا کھانا تو کجا پانی تک نوش نہیں کیا۔ وہ اپنا کھانا اور پانی ساتھ لے کر گئے تھے ۔ وہی کھانا جو احتجاجی کسان سڑکوں پر کھا رہے ہیں، قائدین نے حکومت کے نمائندوں کے ساتھ اسی کو نوش کیا۔ قائدین کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھی کھلے آسمان کے نیچے صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ، ایسے میں ہمارے حلق سے سرکاری نوالہ کیسے اتر سکتا ہے۔ اخلاص اور کردار کا یہ مظاہرہ کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ دہلی میں کسانوں کے نمائندوں نے سرکاری غذاؤں کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن حیدرآباد میں مسلمانوں کے نمائندہ مذہبی اور سیاسی قائدین جب چیف منسٹر کے دربار میں پہنچے تو بات چیت سے قبل سرکاری مرغن غذاؤں سے شکم سیر ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ قیادت کی زبان جب سرکاری غذاؤں سے تر ہوجائے تو پھر اس زبان سے حکومت کے خلاف الفاظ کیسے ادا ہوں گے۔ جب حلق سے سرکاری کھانا اتر جائے تو وہاں سے حکومت کے خلاف آواز کی امید کرنا فضول ہے۔ الغرض کسانوں نے یقیں محکم اور عمل پیہم کا جو نمونہ پیش کیا ، وہ ہر محروم طبقہ بالخصوص مسلمانوں کے لئے روشنی دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے جن صفات کو جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیریں کہا تھا ، آج ان صفات سے مسلمان محروم ہیں۔ دیڑھ سال تک زرعی قوانین کو ملتوی رکھنا مودی حکومت کی شکست کو ظاہر کرتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے اقلیتوں میں تیسرے نمبر پر آنے والے سکھ جب حکومت کو جھکا سکتے ہیں تو ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت اپنے حقوق حاصل کیوں نہیں کرسکتی؟ مسلم قیادتوں نے قیادت کے اسلامی کردار کو فراموش کردیا جس کے نتیجہ میں وہ بے وزن اور ان کی آواز بے اثر ہوچکی ہے ۔

انتشار اور اختلاف کے نتیجہ میں محرومی اور پستی مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ کسانوں سے کچھ تو سبق حاصل کرنا ہوگا۔ حقوق حاصل کرنے اور دوسروں کی طرح مساوی شہری کا درجہ پانے کیلئے اتحاد اور طاقت بن کر ابھرنا ہوگا ۔ کب تک حکومتوں کے رحم و کرم پر زندہ رہیں گے اور کب تک کاسۂ گدائی لے کر حکومت کے ایوانوں میں انصاف کی بھیک مانگتے رہیں گے۔ بدلتے حالات میں مانگنے اور گڑگڑانے سے حقوق حاصل ہوں گے اور نہ ہی مسائل حل ہوں گے۔ حقوق کو مانگنے کے بجائے چھیننے کی طاقت پیدا کرنا ہوگا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان متحد اور قیادتیں مخلص اور دیانتدار ہوں۔ مفاد پرست قیادت نے اپنے حقیر ذاتی اغراض کے لئے ملت کے مفادات کا سودا کیا ہے۔ اقتدار وقت کے گریبان پکڑنے کی طاقت اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کیلئے قیادت کا بے غرض اور با کردار ہونا ضروری ہے۔

شاہ بانو کیس میں جب سپریم کورٹ نے شریعت کے خلاف فیصلہ دیا تھا تو مسلمانوں نے ملی حمیت اور غیرت ایمانی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ راجیو گاندھی حکومت کو شریعت کے حق میں دستوری ترمیم پر مجبور ہونا پڑا جس سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بے اثر ہوگیا تھا ۔ مسلمانوں میں آج وہ جذبہ ہے اور نہ ہی وہ بے باک اور ایماندار قیادت موجود ہے جس کے نتیجہ میں ہر موڑ پر نشانہ بن رہے ہیں۔ دوسری بڑی اکثریت کو محکوم بناکر حوصلوں کو پست کرنے کی سازش کا مقصد دوسرے درجہ کے شہری کا احساس پیدا کرنا ہے ۔ شریعت اسلامی میں تبدیلی ، مساجد پر حملے ، مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر اور جان و مال کے نقصانات کے باوجود غیرت اور حمیت بے حسی کا شکار ہے۔ حقوق کس طرح حاصل کئے جائیں ، منظم و متحد کس طرح رہیں اور قیادت کا کردار اور اوصاف کیسے ہوں۔ یہ تمام باتیں کسانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان یہ نہ بھولیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں داعی بناکر بھیجا ہے۔ قوم کی قیادت انہیں کرنی ہے اور رہنمائی کیلئے قرآن اور شریعت حوالے کیا گیا۔ جب حق اور سچائی پر ہوں تو پھر محکوم اور مجبور بن کر زندگی بسر کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ عدالتوں کا سہارا لے کر شریعت کے خلاف فیصلے صادر کئے جارہے ہیں ۔ شہریت پر سوال اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی سازش ہے ۔ ان تمام سرگرمیوںکی آخری حد یکساں سیول کوڈ اور ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ مسلمانوں کو اپنی طاقت کا احساس نہیں ہے ، اگر دوسری بڑی اکثریت احساس کمتری سے ابھر کر صرف پانچ منٹ کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تو سارا ہندوستان عملاً لاک ڈاؤن میں تبدیل ہوجائے گا ۔ مبصرین کے مطابق عوام میں جذبہ اور تڑپ تو موجود ہے لیکن علماء و مشائخین اور سیاسی قائدین کی بے حسی نے ان کے جذبہ کو کمزور کردیا ہے۔ کسانوں کا احتجاج کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے اور مرکز کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کسانوں نے یہ ثابت کردیا کہ انہیں عارضی فائدہ نہیں بلکہ مستقل طور پر زرعی قوانین سے چھٹکارا چاہئے تاکہ آنے والی نسلیں بھی سر اٹھاکر زندگی بسر کرسکیں۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمیں تو صرف جگانا ہے سونے والوں کو
جو در کھلا ہے وہاں ہم صدا نہیں دیں گے