ہم جنس پرستوں کی شادی کا مسئلہ اور عدالت عظمی کا فیصلہ

   

پی چدمبرم
ریاست، مملکت یا حکومت کے تصور کے وجود میں آنے سے بہت پہلے ہی مرد و زن (مرد و خواتین) ایک دوسرے کے ساتھ رہ چکے ہیں اور قوانین نے مرد و عورت کے ساتھ رہنے کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسے مختلف نام بھی دیئے گئے اور اس معاملہ میں جو نام ہے سب سے زیادہ استعمال ہوا وہ ہے ’’شادی‘‘۔ چنانچہ دنیا میں ایسے قوانین بنائے گئے یا منظرعام پرلائے گئے جس کے ذریعہ ان شادی شادہ جوڑوں کو مخصوص حقوق اور مراعات سے نوازا گیا۔ انسانی زندگی اور رویہ کے بارے میں جو کچھ علم دیا گیا یا پیش کیا گیا اس کے مطابق الفریڈ کنسے Alfred Kinsey کے دور سے کئے گئے سروے سے پتہ چلتا ہیکہ مرد مرد کے ساتھ خواتین خواتین کے ساتھ تعلقات میں رہا کرتے تھے۔ اس طرح ہم جنس پرستی کا لفظ ہم جنس پرست عورتوں اور ہم جنس پرست مردوں جسے الفاظ کا حوالہ عام ہوگیا اور دنیا نے قبول کیا کہ اس کے دامن میں خواتین خواتین تعلقات، مرد۔ مرد تعلقات، خواجہ سرا عجیب و غریب جنسی رویہ اختیار کرنے والے، جنسی خواہشات اور شہوت سے عاری اور دیگر یعنی (LGBTQIA +) میں پائے جاتے ہیں اور ہر کسی کے اپنے حقوق ہیں اور یہ تمام کے تمام انسان ہیں اور دوسرے انسانوں کی طرح وہ پیار کرتے ہیں اور پیار کئے جاتے ہیں۔ ان کے درمیان جنسی تعلقات بھی پائے جاتے ہیں۔ بہرحال LGBTQIA+ نے جب دوسرے شادی شدہ جوڑوں کی طرح یا ان کے مماثل حقوق کا مطالبہ کیا تب ریاست کا کیا جواب رہا ہے؟ ہندوستانی پارلیمنٹ نے ایسا کوئی قانون مدون یا وضع نہیں کیا جو ہمارے ملک میں LGBTQIA+ کے مابین کسی بھی قسم کے تعلقات کو تسلیم کرے۔ اس کے متضاد اور اس کے برعکس تعزیرات ہند کی دفعہ 377 ہنوز موجود ہے۔ جو فطرت کے خلاف مباشرت (غیر فطری عمل) کو مستوجب سزاء جرم قرار دیتی ہے اور غیرفطری عمل میں ملوث عناصر کو آئی پی سی کی مذکورہ دفعہ سزاء دیتی ہے لیکن صرف 2018ء میں نوتیج سنگھ بمقابلہ یونین آف انڈیا مقدمہ میں 5 رکنی بنچ نے 2012ء میں دو رکنی بنچ کی جانب کئے گئے فیصلہ کو الٹ دیا اور باہمی رضامندی سے کی جانے والی ہم جنس پرستی کو غیرمجرمانہ فعل قرار دیا یعنی اسے جرم قرار دیئے گئے سابقہ فیصلہ کو پلٹ دیا۔ پانچ سال بعد LGBTQIA+ کمیونٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں کئی ایک سوالات اٹھائے گئے خاص طور پر LGBTQIA+ کے شہری حقوق بشمول ان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو تسلیم کرنے سے متعلق سوالات اٹھائے گئے۔ ہم جنس پرستوں کے ان سوالات کے جوابات 17 اکٹوبر 2023ء کو اس وقت منظرعام پر آئے جب عدالت عظمیٰ کے پانچ عزت مآب جج صاحبان نے بعض مسائل پر LGBTQIA+ کے خیالات سے اتفاق کیا اور بعض سے عدم اتفاق کیا۔ بہرحال جسٹس رویندر بھٹ نے فیصلہ سنایا اور جس سے جسٹس ہیماکوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا نے یہ کہتے ہوئے اتفاق کیا کہ یہی آج ملک کا قانون ہے۔ ہم جنس پرستوں کی سپریم کورٹ میں درخواست دلائل کی سماعت اور پھر فیصلہ جاری کئے جانے اور فیصلہ کے بعد بھی تقریباً سیاسی جماعتوں نے خود کو اس مسئلہ سے دور رکھنے میں عافیت سمجھی۔ جہاں تک سیاسی جماعت کا سوال ہے ایک سیاسی جماعت ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور جس مسئلہ یا موضوع پر کوئی موقف اختیار کرتی ہے تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس لئے سیاسی جماعتوںکیلئے کسی خاص موضوع پر عام موقف اختیار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس مقدمہ میں ہی سیاسی جماعتیں ایل جی بی ٹی یا ہم جنس پرستوں کی شادیوں سے متعلق مسئلہ پر بھی کوئی موقف اختیار کرنے سے ہچکچارہی ہیں۔ جہاں تک میری اپنی رائے کا سوال ہے میں یہی کہہ سکتا ہوں اور جو امید کرسکتا ہوں وہ یہی ہیکہ اس موضوع پر مباحث ہوں۔ آپ کو بتادیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی اپیل مسترد کئے جانے کے بعد یہ فیصلہ موضوع بحث بن گیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں واضح طو رپر کہا کہ شادی میں مساوات قانونی ہیں یا نہیں اس پر پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہئے اور جہاں تک نئے قوانین مدون کرنے یا وضع کرنے کا سوال ہے وہ عدالت (سپریم کورٹ کے) کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اس کے علاوہ شادی وہ ادارہ ہے جس میں دو جنس (مرد۔ عورت) شامل ہوتے ہیں۔ عدالت نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کئے جانے کے مسئلہ کو پارلیمنٹ کے صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پارلیمنٹ میں اس ضمن میں جلد ہی کوئی قانون منظور کیا جائے گا تاکہ مرد۔ مرد اور عورت۔ عورت کے درمیان شادی کو تسلیم کیا جاسکے۔ یہاں تک کہ اسپیشل میریج ایکٹ بھی اس معاملہ میںان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ہم جنس پرستوں کیلئے ان کے موافق قانون بننا فی الوقت مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن تعلقات کا جو حق ہے وہ بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ آپ کو بتادیں کہ سی جے آئی نے سماعت کے دوران یہاں تک کہا کہ حکومت کو شادی کے بغیر بھی ہم جنس پرستوں کے تعلقات کو تسلیم کرنا چاہئے اور انہیں قانونی تحفظات اور حقوق فراہم کیا جانا چاہئے۔ تاہم دوسرے تین ججس نے اس سے اتفاق نہیں بلکہ اختلاف کیا۔ چیف جسٹس کے مطابق سیول یونین کے اختیارات میں اپنا ساتھی منتخب کرنے کا حق اور اس تعلق کو تسلیم کرنے کا حق شامل ہے۔ اگر QUEER رشتوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے تو یہ آزادی میں رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے۔