ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے

   

گاندھی خاندان کی مخالفت … کل کے وفادار آج کے باغی
مودی کو امریکہ میں مایوسی … دو دن قبل وطن واپسی

رشیدالدین
’’جس پر احسان کرو اس کے انتقام سے بچو‘‘ حضرت علیؓ کا یہ قول کانگریس پارٹی کے حالات پر صادق آتا ہے۔ وہ زمانہ نہیں رہا جب وفاداری اور احسان مندی کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے تھے ۔ انسان میں شرافت باقی رہے تو وہ دوسرے کے احسانات کا بھلائی اور خیر خواہی سے جواب دیتا ہے لیکن سماج سے نیکی اور بھلائی جیسی خصوصیات ختم ہورہی ہیں اور انسان موقع پرست اور ابن الوقت ہونے لگا ہے۔ کسی سے فائدہ حاصل کرنا ہو تو تعریفوں کے پل باندھ کر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جیسے ہی کام نکل جائے یا سامنے والے کے حالات تبدیل ہوجائیں تو پھر ’’مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں‘‘ جیسا حال ہوجاتا ہے ۔ انسانیت اور شرافت تو یہی ہے کہ اچھے اور برے دونوں وقت میں وفاداری قائم رہے ۔ سیاست نام ہی موقع پرستی کا ہے اور گاندھی خاندان کے خلاف بغاوت سماج میں گرتی ہوئی قدروں کی کھلی مثال ہے۔ کوئی نیا اور ناتجربہ کار قائد بغاوت کرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ محرومی کے احساس نے باغی بنادیا لیکن یہاں تو ایسے لوگ زبان سے زہر اگل رہے ہیں جنہوں نے زندگی بھر اقتدار کے مزے لوٹے۔ جن کی شناخت کانگریس سے رہی ، آج انہیں وہی پارٹی اور اس کی قیادت بری معلوم ہورہی ہے۔
G-23
کے نام سے قیادت پر انگشت نمائی کرنے والے پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ زندگی کی آخری سانس تک بھی پارٹی اور گاندھی خاندان کے احسانات کا بدلہ چکایا نہیں جاسکتا لیکن حالات کیا تبدیل ہوئے کہ ہر کسی کی زبان دراز ہونے لگی۔ اسی لئے کسی کے ظرف اور شرافت کا امتحان برے وقت میں ہوتا ہے۔ اقتدار ، دولت اور مرتبہ ہو تو اطراف ہجوم ہوتا ہے اور حالات بگڑتے ہی سایہ بھی ساتھ چھوڑنے لگتا ہے اور کل تک جو خوبیاں دکھائی دیتی تھیں ، آج وہ خامیاں نظر آتی ہیں۔ بزرگوں نے اسی لئے جس پر احسان کیا جائے اس سے ہوشیار رہنے کی نصیحت کی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان دوسرے پر احسان کرنا چھوڑ دے۔ کانگریس میں اصلاحات کے نام پر قائدین کے ایک گروپ نے خود کو
G-23
کا نام دے کر قیادت کے فیصلوں پر اعتراضات کو اپنا معمول بنالیا ہے ۔ پارٹی میں سدھار اور استحکام میں یہ گروپ سنجیدہ ہو تو اسے پارٹی فورم میں اپنی رائے پیش کرنی چاہئے، بجائے اس کے کہ میڈیا کے ذریعہ قیادت کا مذاق اڑائیں۔ پارٹی اگر اقتدار سے محروم ہوئی ہے تو اس ناکامی اور شکست کے لئے قیادت کے ساتھ
G-23
بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ گروپ میں شامل قائدین دراصل اقتدار اور کرسی کے عادی ہوچکے ہیں۔ مسلسل دوسری مرتبہ شکست نے ان قائدین میں شناخت کا بحران پیدا کردیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے، اس وقت بنیادی سطح سے پارٹی کو مستحکم کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ عہدوں پر رہتے ہوئے تنظیمی استحکام کی فکر کی جاتی تو شائد آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا لیکن اقتدار کے وقت تو قدم زمین پر نہیں بلکہ ہوا میں تھے اور پرواز فضاؤں میں تھی ۔ ایسے نازک وقت میں پارٹی اور قیادت کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہنا چاہئے لیکن
G-23
قائدین اپنی سرگرمیوں سے درپردہ بی جے پی کی مدد کر رہے ہیں۔ قیادت میں تبدیلی کی مانگ کرنے والے پہلے کوئی متبادل چہرہ تو پیش کریں جسے عوام پارٹی صدر کے طور پر قبول کرسکیں۔ راجیو گاندھی کی موت کے بعد گاندھی خاندان کی قیادت کے بغیر کانگریس پارٹی بکھرنے لگی تھی اور اگر سونیا گاندھی اپنے شوہر کے غم کے باوجود کانگریس کو بچانے کیلئے قیادت قبول نہ کرتیں تو پارٹی کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتی۔ سونیا گاندھی کو تاریخ میں قربانی کی علامت کے طور پر اس لئے بھی یاد کیا جائے گا کہ انہوں نے نہ صرف پارٹی کو بچایا بلکہ 2004 ء وزیراعظم کے عہدہ کی قربانی دی اور منموہن سنگھ کو آگے کردیا۔ اپنی ساس اور پھر شوہر کی قربانی کے باوجود سونیا گاندھی نے اپنے جگر کے ٹکڑوں راہول اور پرینکا کو ملک اور عوام کی خدمت میں جھونک دیا حالانکہ ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ ملک کی جدوجہد آزادی میں موتی لال نہرو ، پنڈت نہرو اور پھر آزادی کے بعد اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قربانیوں اور کارناموں کو فراموش کرنا احسان فراموشی کے درجہ میں آئے گا۔ ملک کا کوئی خاندان دو وزرائے اعظم کی قربانیوں کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔
G-23
دراصل فرقہ اعتراضیہ کے طور پر وجود میں آیا ہے جس کا مقصد قیادت کو قیدی بناکر رکھنا ہے تاکہ ان کی مرضی کے فیصلے کئے جاسکیں۔ گروپ میں بیشتر ایسے ہیں جو کبھی عوامی منتخب نہیں رہے۔ الیکشن کے بجائے ہمیشہ سلیکشن کے ذریعہ اقتدار تک پہنچے۔ کپل سبل نے کہا کہ
G-23
کوئی جی حضوری گروپ نہیں ہے۔ کپل سبل شائد بھول رہے ہیں کہ 2004 ء سے 2014 ء تک دس سالہ دور اقتدار میں قیادت کی جی حضوری کرتے رہے اور مرکزی کابینہ میں برقرار رہے۔ اقتدار کے دوران سونیا گاندھی کی قربانی اور راہول گاندھی کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا لیکن اپوزیشن میں آتے ہی قیادت ناتجربہ کار دکھائی دے رہی ہے۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے دور میں
G-23
میں شامل کسی بھی قائد کو پارٹی کی تنظیم سازی کی فکر نہیں ہوئی اور اس وقت تو چاپلوسی اور جی حضوری میں مسابقت چل رہی تھی۔ کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی قیادت کو چیلنج کریں ۔ 2014 ء میں انتخابی شکست کے لئے سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو ذمہ دار قرار دینے سے قبل
G-23
قائدین کو اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا ۔ اگر وہ عوامی تائید کو ووٹ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے تو پارٹی کی شکست کا تصور بھی محال تھا۔ گجرات کے چیف منسٹر سے لے کر وزیراعظم کے عہدہ تک مودی کو جس منظم انداز میں پروجکٹ کیا گیا اس کے ساتھ بی جے پی کی لہر اب گاؤں گاؤں ، آر ایس ایس کی محنت نے بی جے پی اقتدار تک پہنچایا۔ کانگریس کو اسی انداز میں محنت کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں کے بجائے قیادت کو نشانہ بنانا افسوسناک ہے۔
کانگریس کے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کیلئے سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو متحرک ہونا پڑے گا ۔ انہیں
G-23
میں شامل قائدین کی رائے حاصل کرتے ہوئے متفقہ فیصلوں کی راہ ہموار کرنی چاہئے کیونکہ کئی سینئر اور تجربہ کار قائدین کو نظرانداز کئے جانے کا احساس ستارہا ہے۔ سینئر اور جونیئر قائدین کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پارٹی کے حق میں فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ 2024 ء الیکشن کے لئے زیادہ وقت نہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ G-23 کی جانب سے قیادت کو نشانہ بنانا ایسا ہی ہے جیسے پاور ہاؤس کو تباہ کر کے اندھیروں کا گلہ کیا جائے۔ G-23 قائدین کو بیان بازی سے قبل سونیا گاندھی کی صحت کا خیال کرنا چاہئے جو ناسازیٔ مزاج کے باوجود بھاری ذمہ داری سنبھال رہی ہے۔ غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا سے سبکدوشی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح ان کی تعریف کی ، اسی وقت یہ محسوس ہوا کہ مودی نے کانگریس میں ناراضگی کا بیج بودیا ہے۔ تجربہ کار قائدین کو جاننا چاہئے کہ بہار اور خزاں کا موسم عارضی ہوتا ہے۔ کانگریس ان دنوں خزاں کے موسم سے گزر رہی ہے اور بہار آنے میں دیر نہیں لگے گی، لہذا درخت کی حفاظت کی جانی چاہئے کیونکہ یہی ہر کسی کو پھل اور سایہ دونوں دے سکتا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی دورہ امریکہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے۔ دورہ کے سلسلہ میں گودی میڈیا اور چاٹوکار صحافیوں کی جانب سے جس انداز میں دعوے کئے جارہے تھے ، وہ تمام امریکہ میں غلط ثابت ہوئے اور مودی کو تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔ مودی کو یقین تھا کہ انہیں امریکی حکومت شاہانہ انداز میں ریسیو کرے گی اور روزانہ امریکی میڈیا میں مودی چھائے ہوئے رہیں گے۔ مودی کے استقبال کے لئے ایرپورٹ پر صرف عہدیدار موجود تھے اور نائب صدر کملا ہیرس اور صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے دوران مودی کو جمہوریت ، رواداری اور انسانیت کا درس ملا۔ امریکی میڈیا نے مودی کے دورہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ کملا ہیرس اور بائیڈن سے جس وقت مودی نے ملاقات کی تو شائد انہیں مودی کا یہ نعرہ یاد آگیا جو انہوں نے اپنے دوست ٹرمپ کے حق میں لگایا تھا۔ اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگانے والے مودی جب بائیڈن سے بغلگیر ہونے کے لئے آگے بڑھے تو امریکی صدر نے بغلگیر ہونے کے بجائے انہیں دور سے ہی استقبال کرنے میں عافیت سمجھی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مودی جس کے بھی گلے لگتے ہیں ، وہ اقتدار سے محروم ہوجاتا ہے۔ امریکی نائب صدر اور صدر دونوں نے مودی کو ہندوستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے تحفظ کی نصیحت دے ڈالی لیکن مودی نے اسے ماحولیاتی تحفظ سمجھا ۔ ایک مرحلہ پر کملا ہیرس کے ریمارکس کو تبدیل کرتے ہوئے ہندوستانی مترجم نے مودی کیلئے پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کا دورہ 28 ستمبر تک تھا لیکن وہ 26 ستمبر کو دو دن قبل ہی ہندوستان واپس ہوگئے۔ حکومت نے آج تک مقررہ وقت سے قبل واپسی کی وجوہات بیان نہیں کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ پہنچنے کے باوجود مودی نے اپنے دوست ٹرمپ سے ملاقات نہیں کی۔ امریکی دورہ کی ناکامی سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ کانگریس کی صورتحال پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہم سایہ دار پیڑ زمانے کے کام آئے
جب سوکھنے لگے تو جلانے کے کام آئے