ہندوتوا کی لیبارٹری میں فرقہ پرستی کے جان لیوا وائرس کی تیاری

   

برندا کرت
مسلم لڑکیوں کے حجاب یا پردہ کی پابندی کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی یہ ایک تنازعہ ہے۔ اگر لڑکیاں حجاب کرنا چاہتی ہیں تو کرسکتی ہیں اور کسی کو اُن کے نجی معاملات میں مداخلت کرنے کا حق نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آج ہیڈ اِسکارف کو متنازعہ بنادیا گیا ہے اور اسے حجاب کا نام دیا جارہا ہے۔ خاص طور پر بی جے پی کی زیراقتدار ریاست کرناٹک میں حجاب تنازعہ کا نام لے کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل نوجوان مسلم لڑکیوں کے حق تعلیم پر حملہ ہے۔ حصول تعلیم کا حق انہیں دستور ہند اور اس کے تحت بنائے گئے قانون میں دیا گیا ہے اور دستور میں اس کی طمانیت دی گئی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن اگرچہ اپنے نئے سربراہ کے تحت موافق حکومت ہے، لیکن اس نے بھی 17 جنوری کو ایک شکایت موصول ہونے کے بعد اڈپی کے ضلع حکام کے نام نوٹس جاری کی ۔ اس نوٹس میں واضح طور پر کہا گیا کہ اس کیس کے حقائق بڑے پریشان کن ہیں اور شکایت میں جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، وہ انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے حق تعلیم متاثر ہوتا ہے۔قومی حقوق انسانی کمیشن نے اڈپی کے حکام کو دی گئی نوٹس میں یہ بھی کہا کہ جو الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ طالبات کے حقوق انسانی کو بھی پامال کیا گیا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ کے ایک رکنی بینچ نے حکومت ِکرناٹک کی جانب سے 5 فروری کو جاری کئے گئے غیرضروری اور بدنیتی پر مبنی حکم کے خلاف عبوری حکم التواء جاری کرنے سے گریز کیا۔ حکومت کرناٹک نے 5 فروری کو جو حکم نامہ جاری کیا، اس سے بارہویں جماعت کے سال آخر میں زیرتعلیم ہزاروں نوجوان مسلم لڑکیوں کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا ہے کیونکہ بارہویں جماعت کے امتحانات صرف دو ماہ بعد ہونے والے ہیں۔ حکومت کے آرڈر میں غلط طور پر کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعہ 133(2) کو شامل کیا گیا جس میں کہا گیا کہ طالبات کو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی یا پری یونیورسٹی کالجس کے ایڈمنسٹریٹیو بورڈ کی اپیلیٹ کمیٹی کی جانب سے منتخب کیا گیا یونیفارم پہننا پڑے گا۔ یہ بورڈ اور اپیلیٹ کمیٹی پری یونیورسٹی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت کام کرتی ہیں۔ ایڈمنسٹریٹیو کمیٹی کی جانب سے ایک یونیفارم منتخب نہ کرنے کی صورت میں ایسے لباس جس سے مساوات، ہم آہنگی اور لا اینڈ آرڈر متاثر ہوتا ہو یا اس میں خلل پیدا ہوتا ہو، اسے زیب تن نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک اس مخصوص دفعہ 133(2) کے استعمال کا سوال ہے، وہ خود قابل گرفت ہے یعنی اس دفعہ پر بھی انگلی اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ مذکورہ دفعہ تعلیم کے فروغ سے متعلق معاملات میں ریاستی حکومت کو راست مداخلت کی اجازت دیتی ہے۔ ایسے میں یونیفارم اس زمرہ میں نہیں آتے۔ حکومت کرناٹک نے یونیفارم سے متعلق جو کچھ بھی حوالے دیئے ہیں، اس کی نیت ٹھیک نہیں لگتی اور اس کے حکم سے واضح پتہ چلتا ہے کہ یہ مبہم ہے۔ مثال کے طور پر کرناٹک میں کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کی صدارت علاقہ کا منتخبہ ایم ایل اے کرتا ہے یعنی جس علاقہ میں کالج واقع ہے، وہاں کی نمائندگی کرنے والا رکن اسمبلی کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کی قیادت کرتا ہے۔ ضلع اڈوپی کے پی یو کالج جہاں سب سے پہلے حجاب کے بارے میں مسئلہ پیدا کیا گیا، اس کالج کی ڈیولپمنٹ کمیٹی کا سربراہ بی جے پی رکن اسمبلی ہے اور اسی کی نگرانی میں لڑکیوں کے سروں کو ڈھانک کر یا ہیڈاسکارف پہن کر کیمپس میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حالانکہ ماضی میں لڑکیوں کے ہیڈ اسکارف کے خلاف کالج میں اس طرح کے کوئی قواعد نہیں تھے۔ بجرنگ دل اُڈپی کے سیکریٹری سریندر کوٹیشور نے تو یہاں تک انتباہ دیا کہ اگر کوئی کالج کیمپس میں مسلم طالبات کو حجاب کی اجازت دیتا ہے تو پھر وہ تمام ہندو طالبات کو زعفرانی شالیں اوڑھنے یا استعمال کروائیں گے ۔ اس نے اپنے منصوبہ کو حکومت کی سرپرستی میں عملی شکل دی۔ پہلے حکومت نے اپنے غیرریاستی عناصر کے نیٹ ورک کے ذریعہ جارحانہ ہندو نوجوان طلبہ کو ہیڈ اسکارف کے جواب میں زعفرانی اسکارف پہننے کیلئے متحرک کیا۔ اس میں بجرنگ دل کا اہم کردار رہا۔ پھر حکومت نے ان زعفرانی عناصر کو ان کالجس کی جانب مارچ کرنے کی اجازت دی جہاں کے باب الداخلہ پر باحجاب مسلم طالبات کو روکا جارہا تھا۔ جبکہ حکومت کی پولیس فورس بھی مسلم طالبات کو روکے جانے اور انہیں ہراساں کئے جانے کا تماشہ دیکھتی رہی ہے اور پھر حکومت نے ایک حکم جاری کردیا اور کہا کہ ہیڈاسکارف کے استعمال سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ، اسی لئے کالجس میں حجاب کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ۔ کسی کالج میں اس بارے میں کوئی قواعد ہوں یا نہ ہو ، اس حکم پر عمل آوری کی گئی۔ ایک اور کالج بھنڈارکر آرٹس اینڈ ڈگری کالج ہے جو ضلع اڈپی میں ہی واقع ہے۔ اس کالج نے طالبات کو ایسے ہیڈ اسکارف پہننے کی اجازت دے دی جو دوپٹہ کی طرح ہو، لیکن اس رول کے باوجود اس کالج میں ہیڈاسکارف پہن کر آنے والی طالبات کو کالج کے باہر ہی روک دیا جارہا ہے، کیا یہ غیرمنصفانہ نہیں ہے؟ مسلم لڑکیوں کو اس طرح سے نشانہ بنانا جوابی ردعمل کا باعث بنا اور پھر ہیڈ اسکارف کا پہننا احتجاج کی علامت بن گیا۔ ایسے لوگوں کیلئے بھی جنہوں نے کبھی بھی ہیڈ اسکارف استعمال نہیں کیا ۔ کرناٹک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، ایسی صورتحال میں مسلم انتہا پسند تنظیموں کے لئے ایک میدان تیار کیا جارہا ہے جو آزادی نسواں کی تائید و حمایت نہیں کرتے بلکہ اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ موجودہ حالات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ کالج انتظامیہ کسی اور کے اشارے پر کام کررہا ہے اور مسلم لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں یونیفارم کے اصل نظریات کی مخالف طالبات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا بیان تو انتہائی مضحکہ خیز رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جو یونیفارم تعلیمی اداروں کیلئے مقرر کیا ہے، طالبات کو اس کا احترام کرنا چاہئے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں یہ واضح کرتا ہوں کہ جو طالبات ، حکومت کی جانب سے ڈریس کوڈ یا یونیفارم سے متعلق قواعد مقرر کئے گئے ہیں اس کی مخالفت کرتی ہیں تو وہ اسکولس میں داخل نہیں ہوسکتی۔ کلاس میں نہیں جاسکتی۔ وزیر تعلیم کو یہ جان لینا چاہئے کہ مسلم طالبات ، حکومت کے تجویز کردہ یونیفارم زیب تن کرتی ہیں اور وہ اضافی طور پر اپنے سر کو ڈھانکے رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم طالبات اپنے یونیفارم کو برقعوں سے تبدیل کررہی ہیں۔ وزیر تعلیم کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مسلم طالبات اپنے چہروں پر نقاب بھی نہیں لگا رہی ہیں جبکہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے لڑکے تربن استعمال کرتے ہیں، کیا وہ یونیفارم سے متعلق حکومت کے قواعد کی خلاف ورزی کررہے ہیں؟ کیا ہندوستان میں کہیں کوئی بھی ایسا قاعدہ ہے جہاں کوئی سکھ لڑکے یا لڑکی کو تربن استعمال کرنے یا اپنا سر ڈھانکے رکھنے سے روکتے ہیں۔ آخر حکومت اس معاملے میں دوہرا معیار کیوں اختیار کررہی ہے؟ اسے اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ تعلیمی اداروں میں کوئی بھی یونیفارم کے خلاف نہیں اور اگر کوئی مسلم لڑکی ہیڈاسکارف استعمال کرتی ہے تو یہ کسی بھی طرح یونیفارم کی خلاف ورزی نہیں۔ حکومت کرناٹک ہیڈ اسکارف کو تعصب و جانبداری کا نشانہ بنانے کیلئے یہ استدلال پیش کررہی ہے کہ اس سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے اور وہ بالکل مضحکہ خیز ہے۔ کرناٹک بلکہ ہندوستان میں برسوں سے ہیڈ اسکارف نے کبھی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ خود ہندوستانی ریاست کیرالا میں بے شمار مسلم طالبات ایسی بھی ہیں جو ہیڈاسکارف پہنتی ہیں اور ان کی کثیر تعداد ایسی بھی ہیں جو ہیڈ اسکارف کا استعمال نہیں کرتی یعنی پہننے یا نہ پہننے کی کوئی مجبوری نہیں ۔ کیرالا میں ہیڈاسکارف پہننے والی طالبات نے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید نہیں کیا۔ یہ ایسی ریاست ہے جہاں مسلم خواتین میں سب سے زیادہ شرح خواندگی پائی جاتی ہے اور ہائیر سیکنڈری اسکولس میں سب سے زیادہ مسلم لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ ایسے میں حکومت کرناٹک نے جو حکم ہیڈاسکارف پر پابندی کیلئے جاری کیا وہ دستور کی دفعہ 25 کے تحت مسلم طالبات کے بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم ’’بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن افسوس مسلم لڑکیوں کو جب وہ پڑھنے کیلئے اسکولس یا کالجس پہنچتی ہیں تو انہیں ہیڈ اسکارف کے بہانے روک دیا جاتا ہے۔ کرناٹک کے محکمہ اور پنچایت راج نے ایک سروے کیا اور اس سروے کے حقائق جولائی 2021ء میں کرناٹک ہائیکورٹ میں پیش کئے گئے جس میں بتایا گیا کہ دیہی کرناٹک میں 1.59 لاکھ بچوں نے اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حکومت ، لڑکیوں کو اسکولس میں داخلے سے روک رہی ہے اور وہ صرف اور صرف اپنے تنگ نظری پر مبنی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ایسا کررہی ہے اور اس کیلئے ایسا لگتا ہے کہ کورونا وباء کی جگہ اب فرقہ وارانہ وباء لے رہی ہے اور ہندوتوا فورسیس کی لیباریٹری میں یہ وائرس تیار کیا گیا ہے۔ جس سے لاک ڈاؤن سے تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کی زندگیاں برباد ہورہی ہے۔