ہندوستان میں غریب نہیں نیتی آیوگ کا دعوی ظالمانہ مذاق

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

اگر آپ ایک صبح نیند سے بیدار ہوں اور پھر اخبارات میں چیختی چلاتی ایک سرخی پر آپ کی نظر پڑے جو اس طرح ہو ’’مزید غریب نہیں، ہندوستان نے غربت ختم کردی ہے‘‘ تو اس میں حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس لیے بتارہے ہیں کہ ملک سے غربت کے خاتمہ کی خبر یقینا ہر کسی کے لیے حیران کن ہی ہوگی۔ نیتی آیوگ بھی آپ سے یہی چاہتا ہے کہ آپ اس بات پر یقین کرلیں کہ ہندوستان میں اب کوئی غریب نہیں۔ حکومت نے غربت کا پوری طرح خاتمہ کردیا۔ ایک بات ضرور ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن (نیتی آیوگ) جیسے ایک قابل احترام اور باوقار ادارے کو حکومت کا تابع ترجمان بنادیا گیا ہے، پہلے نیتی آیوگ نے یہ اعلان کیا کہ کثیر جہتی غریب لوگوں کے تناسب کا تخمینہ اس نے 11.28 فیصد لگایا تھا۔ اب نیتی آیوگ کے سی ای او نے اپنی اس دریافت کا اعلان کیا کہ ہندوستان میں غریبوں کی تعداد جملہ آبادی کا 5 فیصد بھی نہیں ہے۔ سی ای او نے یہ بلند بانگ دعوی دراصل ہائوز ہولڈ کنسمپشن ایکسپینڈیچر سروے (HCES) کے نتائج کی بنیاد پر کیا ہے جسے نیشنل سامپل سروے آفس نے شائع کروایا۔ HCES نے کچھ خوشگوار حیرت پیش کی لیکن وہ یقینی طور پر اس نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ ہندوستان میں غریبوں کا تناسب 5 فیصد سے زیادہ ہے۔
ڈیٹا کا مطالعہ کیجئے:
ایچ سی ای ایس کا اگست 2022 اور جولائی 2023ء کے درمیان اہتمام کیا گیا جس کے دوران اس نے 8723 دیہاتوں اور 6115 شہری بلاکس میں 261745 گھرانوں (دیہی علاقوں میں 60 فیصد اور شہری علاقوں میں 40 فیصد) کا احاطہ کرتے ہوئے تفصیلات جمع کی ۔ ہم فرض کریں گے کہ Sample کافی حد تک نمائندگی کرنے میں کامیاب رہا اور طریقہ کار شماریاتی اعتبار سے درست تھا۔ اس کا مقصد ماہانہ فی کس اخراجات (MPCE) کو موجودہ/ برائے نام قیمتوں میں شمار کرنا تھا جس کے بعد ایک شخص کے اوسطاً ماہانہ اخراجات کچھ اس طرح منظر عام پر آئے۔ مثال کے طور پر 5 فیصد بالائی سطح کے افراد کی ماہانہ خرچ دیہی علاقوں میں 10501 روپئے اور شہری علاقوں میں 20824 درج کئے گئے۔ ماہانہ خرچ کے اوسط کا جہاں تک سوال ہے دیہی علاقوں میں یہ 3773 اور شہری علاقوں میں 6459 روپئے ریکارڈ کئے گئے۔ اب ہم نچلی سطح کی 5 فیصد آبادی کے فی کس ماہانہ خرچ کے بارے میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دیہی علاقوں میں 1373 اور شہری علاقوں میں 2001 روپئے ہے۔ اسی طرح اوسط کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دیہی علاقوں میں ماہانہ خرچ 3094 روپئے اور شہری علاقوں میں 4963 روپئے درج کیا گیا۔ Median Expenditure کا مطلب یہ ہے کہ جملہ آبادی کے 50 فیصد آبادی کا فی کس مصارف دیہی آبادی کے لیے 3094 روپئے اور شہری آبادی کے لیے 4953 روپئے سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔ ایسے میں نچلی سطح کی 50 فیصد آبادی کو لیجئے جس سے اندازہ ہوگا کہ کیسے یہ اعداد و شمار حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 0-5 فیصد کے لیے دیہی علاقوں میں 1373 روپئے اور شہری علاقوں میں 2001 روپئے، 5-10 فیصد کے لیے دیہی علاقوں میں 1782 روپئے اور شہری علاقوں میں 2607 روپئے اس طرح 10-20 فیصد کے لیے دیہی علاقوں میں 2112 روپئے اور شہری علاقوں میں 3157 روپئے۔ اس لئے اسے 20 فیصد پر ہی روک دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ NITI آیوگ سنجیدگی سے یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص (دیہی علاقوں میں رہنے والا) جس کے ماہانہ مصارف (غذا اور غیر غذائی اشیاء پر) 2112 روپئے یا یومیہ 70 روپئے ہے غریب نہیں ہے؟ یا کوئی بھی شخص (شہری علاقوں میں رہنے والا) جس کے ماہانہ مصارف 3157 یا یومیہ 100 روپئے ہے، کیا وہ غریب نہیں؟
میرا مشورہ یہ ہے کہ حکومت نیتی آیوگ عہدیداروں کو چاہئے وہ مرد ہوں یا خواتین فی کس 2100 روپئے دے کر ان سے کہئے کہ ایک ماہ کے لیے دیہی علاقوں میں قیام کریں اور پھر اس بات کی اطلاع دیں کہ ان کی زندگی کتنی خوشحال ہے اور وہ کتنے دولت مند ہیں۔ HCES نے انکشاف کیا ہے کہ مصارف یا کھپت میں خوراک کا حصہ دیہی علاقوں میں 46 فیصد اور شہری علاقوں میں 39 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ شاید درست ہے کیوں کہ بڑھتی ہوئی آمدنی/ اخراجات اور خوراک کی کھپت کی قیمت یکساں رہتی ہے یا کم شرح سے بڑھ رہی ہے۔ دوسرے اعداد و شمار نے طویل مشاہدہ شدہ حقائق کی تصدیق کی۔ درج فہرست ذاتوں و درج فہرست قبائل غریب ترین سماجی گروہ میں وہ اوسط سے نیچے ہیں۔ دیگرپسماندہ طبقات اوسط کے قریب ہیں۔ یہ دوسرے ہیں جو اوسط سے اوپر ہیں۔ ریاستوں کی سطح پر جو ڈیٹا ہے وہ بھی مشاہدہ شدہ حقائق کی تصدیق کرتے ہیں۔ سب سے غریب شہری وہ ہیں جو چھتیس گڑھ، جھارکنڈ، اوڈیشہ، مدھیہ پردیش، اترپردیش، مغربی بنگال اور میگھالیہ میں رہتے ہیں۔ ان کا MPCE دیہی علاقوں کے لیے کل ہند اوسط MPCE سے کم ہے۔ ریاستوں کے ناموں میں صرف تھوڑا سا فرق ہے اگر ہم شہری علاقوں کے لیے قومی اوسط MPCE پر غور کریں۔ ان ریاستوں پر طویل عرصہ تک بی جے پی اور دیگر غیر کانگریسی جماعتوں کی حکومت رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1995 سے بی جے پی کے زیر اقتدار گجرات میں دیہی علاقوں (3798 روپئے بمقابلہ 3773 روپئے) کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں (6621 روپئے بمقابلہ 6459 روپئے) میں قومی اوسط MPCE کو گلے لگاتا ہے۔ راقم الحروف کو جو چیز پریشان کرتی ہے وہ یہ دعوی ہے کہ ہندوستان میں غریب آبادی کا 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب ایک غائب ہوتا ہوا قبیلہ ہے اور اسے اپنی توجہ اور وسائل متوسط طبقہ اور دولت مندوں کی طرف موڑدیں اگر دعوی درست ہو۔
آخر حکومت 80 کروڑ عوام میں سے ہر فرد کو ماہانہ 5 کیلوگرام اناج (چاول) مفت کیوں تقسیم کررہی ہے۔ آخر کار اناج اور متبادل کا حصہ کل MPCE کا صرف 4.91 فیصد (دیہی) اور 3.64 فیصد (شہری) ہے۔ اگر غریب 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں تو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 میں حسب ذیل خطرناک حقائق پیش کیوں کئے گئے۔ ایسے بچے جن کی عمر 6 تا 59 ماہ ہے اور جو خون کی کمی کا شکار ہیں وہ 67.1 فیصد ہیں۔ اسی طرح ایسی خواتین جو 15 تا 49 سال عمر کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور جو خون کی کمی سے متاثر ہیں ان کی تعداد 57.0 فیصد ہے۔ 5 سال سے کم عمر کے ایسے بچے جو ناقص غذا کا شکار ہوکر ٹھٹھر گئے ہیں ان کی تعداد 35.5 فیصد ہے۔ ایسے بچے جن کی عمر 5 سال سے کم ہے اور جو Wasted کے زمرہ میں آتے ہیں ان کی تعداد 19.5 فیصد ہے۔
آیا نیتی آیوگ نے ان بچوں سے اپنی آنکھیں موڑلی ہیں جو دہلی کی سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں؟ کیا نیتی آیوگ نہیں جانتا کہ ایسے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو بے گھر ہیں جو فٹ پاتھوں یا پلوں کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر ملک میں غربت نہیں ہے تو MGNREGS کے تحت 15.4 کروڑ سرگرم مزدوروں کے نام درج ہیں؟ آخر کیوں اجولا استفادہ کنندگان ایک سال میں صرف 3-7 سیلنڈرس خریدتے ہیں؟ اگر نیتی آیوگ چاہتی ہے کہ دولت مندوں کی خدمت کریں تو کرنے دیجئے لیکن انہیں غریبوں کا مذاق اڑانے مت دیجئے۔ حکومت خاتمہ غربت میں کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن وہ غریبوں کو اپنے نظروں سے دور کرنے کی کوشش کررہی ہے۔