ہندوستان میں فرقہ پرستی اور عرب ممالک

   

حسن الحسن
آئی آئی ایس ایس
جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نپور شرما کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کئے گئے گستاخانہ ریمارکس جون 2022ء میں سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئے تب 6 خلیجی ملکوں بحرین، کویت، عمان، قطر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان ملکوں نے ہندوستان میں بڑھتے اسلاموفوبیا پر سخت تنقید کی۔ اگر دیکھا جائے تو ہندو اکثریتی سیاست کی حامل مودی حکومت کے خلاف عرب ملکوں کی جانب سے سرکاری سطح پر تنقید و مذمت کبھی نہیں کی گئی لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو لے کر عرب ملکوں نے سرکاری سطح پر نہ صرف شدید تنقید کی بلکہ ہندوستان میں بڑھتے اسلاموفوبیا کی مذمت سے بھی گریز نہیں کیا۔ اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے دہلی کے تعلقات متاثر ہونے اور ہندوستان کو ایک طویل مدتی نقصان پہنچنے کا امکان نہیں ہے، اس کے باوجود ایک اہم تہذیبی اور ایثار و خلوص کی خوبیوں سے مالامال ہندوستان کی جو شبیہ ہے، وہ ضرور خطرہ میں ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے خلیجی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا کارنامہ انجام دیا ہے اور مودی حکومت میں ان عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئے ہیں حالانکہ بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس ہندوستانی شناخت سے متعلق غیرمشمولیاتی نظریہ یا تصور کے چمپین ہیں۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو حملہ آوروں اور پاکستان کیلئے پانچویں ستون کے طور پر دکھاتا ہے۔ اگست 2019ء میں جب مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی موقف منسوخ کیا ساتھ ہی دستور کی دفعہ 35A کی تنسیخ بھی عمل میں لاکر ریاست بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تب بھی عرب ملکوں کے ساتھ مودی حکومت کے تعلقات پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت مودی کا سعودی دارالحکومت ریاض، متحدہ عرب امارات کے صدر مقام ابوظہبی اور بحرین کی راجدھانی منامہ میں گرمجوشانہ استقبال کیا گیا۔ مودی خلیجی ملکوں کو اپنے عالمی مذہبی سفارت کاری سے متعلق ایجنڈہ کے اہداف کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ سال 2000ء کے وسط سے ہی خلیجی ممالک ایشیا میں اپنے بڑے تجارتی شراکت دار ملکوں چین ، ہندوستان، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ قریبی تعلقات پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب اب خود کو عالمی سطح پر مسلمانوں کے چمپین کے طور پر نہیں دیکھتا جیسا کہ ماضی میں اسے عالمی سطح پر مسلمانوں کے کاز کا چمپین کہا جاتا تھا۔ دراصل سعودی شہزادہ اپنے ملک کو معیشت کے تیل پر انحصار کو کم سے کم کرتے ہوئے ایک معاشی طاقت یا اکنامک پاور ہاؤز میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ مملکت سعودی عرب کو عصری بنانے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کامیاب کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر وہ ہندوستان جیسی معاشی طاقتوں کے ساتھ تعمیری شراکت داری پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب نریندر مودی جنہیں پارلیمنٹ میں زبردست اکثریت حاصل ہے۔ اپنے پیشروؤںکی بہ نسبت خلیجی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعاون و اشتراک کو بڑھانے کی ہر ممکنہ کوشش کررہے ہیں اور اس معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ وقت بھی دے رہے ہیں۔ مودی نے سوائے کویت کے تمام خلیجی ملکوں کے سرکاری دورے کئے اور ان ملکوں کے لیڈران کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت بھی کی تاہم ٹی وی پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ ریمارکس کرتے ہوئے بی جے پی ترجمان نپور شرما نے تن تنہا مودی کی حکمت عملی کو ناکام بنادیا چنانچہ 5 جون 2022ء کو مملکت قطر اور کویت نے نہ صرف نپور شرما کے بیانات کی مذمت کی بلکہ حکومت ہند سے معذرت خواہی کا مطالبہ کیا اور دوسرے خلیجی ملکوں نے اس معاملے میں قطر اور کویت کی تقلید کی اور نپور شرما کے تبصروں پر شدید اعتراض کئے۔ کویت سے تو اس بات کی اطلاعات بھی آئیں کہ ہندوستانی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کردیا گیا تھا، ایسی کئی تصاویر، منظر عام پر آئیں جس میں سوپر مارکٹس سے ہندوستانی مصنوعات کو ہٹاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ اس قسم کے کافی ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہوئے۔ اگر مودی حکومت نپور شرما کے خلاف کارروائی (پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے معطلی) نہ کرتی تو یہ بحران ہندوستان کیلئے کافی نقصان دہ ہوتا۔ اس وقت ہندوستان میں آر ایس ایس نے مسلمانوں کیلئے اس تیقن کا اعادہ کیا کہ انہیں ہندو قوم پرست گروپوں سے کسی خطرہ کا سامنا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جئے شنکر نے ستمبر 2022ء میں ریاض کا سرکاری دورہ کیا۔ ہندوستان اور خلیجی ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی دورے پوری طرح بحال ہوچکے ہیں۔ ہاں ہنوز کویت اور قطر کا معاملہ کچھ اور ہے۔ کویت میں طاقتور و بااثر اسلام پسند اپوزیشن ہے اور قطر سیاسی اسلام کی وکالت کرتا ہے اور اسلام پسند گروہ ان دونوں ملکوں کو ہندوستان سے تعلقات کے بارے میں محتاط رہنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور یہ حالات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک مودی حکومت ہندو قوم پرست ایجنڈہ کا سلسلہ جاری رکھے۔
اگرچہ ہندوستان کو اس کے اصل خلیجی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات میں جو نقصان ہوا ہے، وہ ہنوز محدود ہے لیکن ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کی عدم رواداری سے عام لوگوں میں ہندوستان کی شبیہ ضرور متاثر ہوئی ہے۔ نپور شرما کے ریمارکس کے بعد ہندوستان کے تجارتی بائیکاٹ پر زور دیا جانے لگا۔ ویڈیوز وائرل ہونے لگے۔ عربی اخبارات میں مضامین شائع کئے جانے لگے اور ہندوستان میں مذہبی خطوط پر عوام کی تقسیم کی مذمت ہونے لگی۔ اگرچہ ہندوستانی میڈیا مودی حکومت کے ساتھ ہے۔ لیکن سماجی و حقوق انسانی سے جہدکاروں اور سوشیل میڈیا پر مودی حکومت کی سیاہ پالیسیوں کو بے نقاب کیا جارہا ہے۔ نتیجہ میں خلیجی ملکوں میں عوام اپنی حکومتوں پر مودی حکومت کی مذمت کرنے کیلئے زور دے رہے ہیں۔ اب تو خلیجی ملکوں میں ہندوستانی مسلمانوں پر ہندوستان میں ہورہے مظالم کے ویڈیوز بڑی تیزی سے وائرل ہونے لگے ہیں۔ حکومتوں سے مودی حکومت کے تعلقات خوشگوار ہوسکتے ہیں لیکن خلیج کے عام لوگوں میں ہندوستان کی بگڑی شبیہ یقینا تشویش کا باعث ہے۔