ہمیں بڑا دل رکھنا چاہئے۔ ممتا ز صحافی روایش کمار
سوشیل میڈیا اور چینلوں پر بنائے ماحول کے درمیان کیا آپ میں شکریہ کہنے کا حوصلہ بچا ہے کہ پاکستان نے ونگ کمانڈر ابھینندن کو واپس بھیج دیاہے۔ کیا آپ میں ہندوستان کی طرف سے کئے گئے ان سفارتی کوششوں کے لئے شکریہ کہنے کا حوصلہ بچا ہے جس کی وجہہ سے وینگ کمانڈر ابھینندن کی واپسی ہوئی ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو آک آپ کو شکریہ کہنا چاہئے ۔
آج کادن خواہشوں کا شکریہ کہنے کا ہے جو چاہتی ہیں کہ جنگ نہ ہو۔ اسڈر کی وجہہ آپ خود کو کمزو ر اور چھوٹا نہ بنائیں کہ شکریہ کہنے سے رہ جائیں۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کی شجایت اور واپسی دونوں شاندار ہے اور جنگ کی بات کرنے والے سمجھدار ہوں‘ یہی پیغام ہے آج کا ۔
وزیراعظم عمران خان نے جب نیشنل اسمبلی میں اعلان کیاتو اسمبلی میں تالیاں گونجی اٹھیں۔ پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں تالیوں کی یہ گونج پاکستان میں جنگ کرنے والوں پر گلاب کے پانی کاکام کریں گی جس کے چینلوں کے اینکر او رریٹائرڈ فاسر گرافکس کے ذریعہ میزائیل اورتوپ بناکر گولے داغ رہے تھے ۔
گلاب کے پانی کی ضرورت ہندوستان میں بھی ہے۔ عمران خان مسلسل بات چیت کی بات کرتے رہے ۔ ابھینندن کی رہائی کے اعلان سے انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بات چیت کو لے کر سنجیدہ ہیں۔ وزیراعظم نے کوئی شرط نہیں رکھی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہاتھا کہ وزیراعظم عمران خان وزیراعظم نریندر مودی سے بات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
امن وشانتی تیز کرنی چاہئے۔ پروفیسر ابن کنول شعبہ اُردو دہلی یونیورسٹی
ہندووپاک کے درمیان کشیدگی کے بعد اب حالات بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔ اس لئے ملک کے تمام لوگو کو امن وشانتی کی کوششیں تیز کرنی چاہئے ۔
ہمارے پائلٹ کو جب پاکستان نے آزاد کیا ہے اس کے بعد لوگوں میںیہ امید پیدا ہوئی ہے کہ دونوں ممالک ایک بار پھر امن کے حالات پیدا کریں۔ میراتو ماننا ہے کہ پڑوسی مملک ایک دوسرے کے ساتھ بہتر رشتے استوار رکھیں ‘ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔
اس سلسلے میں ادیبوں ‘ شاعروں اورفنکاروں کو بھی اپنی کوشش کرنا چاہئے کیونکہ وہ اپنی تخلیقات میں امن کی بات کرتے ہیں او رباہمی روابط و ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہندوستان او رپاکستان کے قلما ر وادیب امن کی کوششوں کو تیز کریں اور اس کئے فکر مندر ہوں تو مجھے یقین ہے کہ حالات بدلیں گے ۔ اگر دونوں ممالک کے سربراہان کشیدگی کو بڑھاو ا دینے والے بیانا ت سے گریز کریں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے بہتر بتائج سامنے ائیں گے ۔
اسی طرح دونوں ممالک کے میڈیا اہلکار سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اس کے بھی مثبت ثمرات برآمد ہو ں گے۔ ہمیں یا درکھنا چاہئے کہ کشیدگی اور جنگ سے کسی مسئلہ کا حل سامنے نہیں ائے گا او رنہ ہی اس سے کسی کا کچھ بھلا ہونے والا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ہندوستان او رپاکستان کے زیادہ تر عوام کی خواہش ہے کہ جنگ کے حالات ختم ہوں او رکبھی کشیدگی کا سامنا ہو ۔
یہ حقیقت ہے کہ کشیدگی کی بنیاد دہشت گردی ہے او ردہشت گردی کسی بھی ملک وسماج کے حق میں نہیں ہے۔ اس لئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے تمام سوراخوں کو بند کرے ۔
ہمیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کی ہی وجہہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے حالات پیدا ہوتے ہیں اس لئے دونوں ممالک کو ودہشت گردی کے ہی خاتمہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
کانگریس لیڈر انجینئر محمد اسلم علیگ
ہندپاک کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعددونوں ممالک کے عوام کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں مگر پاکستان نے جب ہمارے جانباز پائلٹ کو رہا کردیاہے تو اب امن عافیت کی امیدروشن ہوگئی ہے مگر اس کے باوجود کچھ نیوز چیانل اور بی جے پی کے کچھ لیڈران ایسی زبان کا استعمال کررہے ہیں جسے کسی بھی طور پر مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان تعقلات کی بات کررہے ہیں تو ہمیں اسی نظریے سے آگے بڑھنا چاہئے۔ کانگریس کے قومی صدر راہول گاندھی نے ملک کے مفاد میں جس طرح کے بیانات دئے ہیں وہ سب کے لئے لائق تقلید ہیں۔
انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتاحل کے دوران جس طرح کے موجودہ حکومت کی حمایت کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے سب سے اوپر دیش ہے مگر بی جے پی کے بعض لیڈران ایسے بیانات دے رہے ہیں جو امن نہیں جنگ کی راہ ہماور کرتے ہیں۔
میں راہول گاندھی کو مبارکباد دیتاہوں اور ان لوگوں کو جو دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی وکالت کررہے ہیں اس لیے جنگ سے کچھ ہاتھ لگنے والا نہیں ہے امن ومحبت میں ہی دونوں ممالک کی ترقی کا راز مضمر ہے ۔
میں حکومت میں بیٹھے ہوئے تمام لیڈران او ربعض نیوز چیانلوں سے گذارش کروں گا کہ وہ سدھر تے ہوئے حالات کوکشیدہ نہ بنائیں اور ایسے بیانات نہ دیں جو دونوں ممالک میں پھر کسی قسم کی کشیدگی کا دروازہ کھولے۔