’’ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم‘‘

   

محمد نصیر الدین
’’کورونا‘‘ کی حقیقت جو کچھ بھی ہو لیکن کورونا نے ساری دنیا کو خوف و اندیشوں کا اسیر بنا دیا ہے اور ساری دنیا بلاتامل اور تاخیر ’’لاک ڈاون‘‘ اور ’’سماجی فاصلہ‘‘ کو اس مبینہ موذی وائرس سے نجات کا واحد ذریعہ سمجھ بیٹھی۔ کم و بیش ساری دنیا تھم سی گئی۔ انسانیت کو گھروں تک محدود کردیا گیا۔ کورونا کا خوف ذہن و دماغ پر اتنا حاوی ہوگیا کہ منصوبہ بندی اور پلاننگ کی دھجیاں اُڑادی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری دنیا میں افراتفری مچ گئی۔ لاکھوں عوام لاک ڈاون سے ناراض ہوکر سڑکوں پر نکل پڑے اور نان و شبینہ اور گھر واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ تب جاکر حکمرانوں کو احساس ہوا کہ کہیں اُن سے کچھ کوتاہی ضرور ہوئی ہے، لیکن حکمراں جب غرور و انا کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو ان کی عقل اور سوچ فکر ماوف ہو جاتی ہے۔ صاف اور سیدھی منزل بھی نہیں گنجلک نظر آنے لگتی ہے چنانچہ ایک غلطی کو نبھانے دسیوں غلطیاں پے درپے کی جانے لگیں۔

تارکین وطن، بے روزگار مزدور اور ٹھپ معیشت نے حکمرانوں کی نیندیں اڑادیں تب جاکر وہ لاک ڈاون سے باہر نکلنے کے جتن کرنے لگے۔ کورونا وائرس کا سب سے زیادہ افسوسناک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ حکومتیں بڑی تیزی سے لاک ڈاون کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن مساجد میں نماز کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں!! مسلمان کے لئے اس سے بڑی ذلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے مختلف اندیشوں کی بنیاد پر مساجد میں عبادات سے روک دیا جائے،۔ جمعہ کی اجتماعی عبادات اور نماز عید سے بھی منع کردیا جائے۔
یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ بازاروں میں عوام کا ہجوم جمع ہوسکتا ہے، شراب کے لئے لوگ امڈ پڑسکتے ہیں، لاکھوں مزدوروں کا بلا احتیاط نقل مقام ہوسکتا ہے پھر بھی کورونا نہیں پھیلے گا لیکن مساجد میں داخلہ سے خالق کائنات کی عبادت سے اور اپنے مالک کے حضور سجدہ ریزی و آہ وزاری سے کورونا پھیل جائے گا؟
مسلمانوں میں کئی ایک عظیم قائد ہیں، علماء اور دانشور بھی بے حساب ہیں، ملی، سماجی، مذہبی و فلاحی تنظیموں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو بھوکوں اور ضرورتمندوں میں تقسیم اناج کو لیکر مصروف بلکہ مسابقت میں لگے ہوئے ہیں لیکن کیا بات ہے کہ عبادت گاہوں کی کشادگی کو لیکر الا ماشاء اللہ سب مہر بہ لب ہیں!! ماہ صیام کی خصوصی عبادات بھی گھروں تک محدود ہوگئیں جمعہ کا اہتام معطل ہوگیا، عبادت گاہوں کا وجود بے معنی کردیا گیا، ایسے میں اس بات کا خدشہ اور اندیشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں مستقبل میں بھی معمولی وجوہات کو بنیاد بناکر کہیں عبادات کے حق سے محروم نہ کردیا جائے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دین کے ایک اہم ستون کی مساجد میں ادائیگی سے روک دیا گیا لیکن ملت ٹس سے مس ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مزید سونے پہ سہاگہ یہ کہ لاک ڈاون میں تھوڑی سی نرمی ہوتے ہی بازاروں میں مرد و خواتین کا ہجوم خریداری کے لئے نکل پڑا۔ حقیر مفادات کے سلسلہ میں وفود تشکیل پاتے ہیں، نمائندگیاں ہوتی ہیں لیکن صد افسوس کہ مساجد میں عبادات کو لیکر کوئی نمائندگی کے لئے تیار نہیں ہے۔ بلکہ سرکاری بولیاں ہر زبان پر جاری و ساری ہیں۔ دوسری طرف آپس میں طنز و تشنیع، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی چالیں اور ہچھو من دیگر نیست کی کیفیت و انداز ابھی بھی جاری و ساری ہے۔ ایسے ہی حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمایا تھا ’’میں ان پیرزادوں سے جو کسی استحقاق کے بغیر باپ دادا کی گدیوں پر بیٹھے ہیں کہتا ہوں کہ یہ کیا دھڑلے بندیاں تم نے کررکھی ہیں؟ کیوں تم میں سے ہر ایک اپنے طریقے پر چل رہا ہے اور کیوں اس طریقے کو سب نے چھوڑ رکھا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا تھا؟ تم میں سے ہر ایک اہم بن بیٹھا ہے،

اپنی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور اپنے آپ کو ہاوی و مہدی سمجھتا ہے۔ ہم ہرگز ان لوگوں سے راضی نہیں جو دنیا کے فوائد کی خاطر لوگوں سے بعیت لیتے ہیں یا اس لئے علم حاصل کرتے ہیں کہ اغراض دنیوی حاصل کرسکیں یا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنے خواہشات نفس کی اطاعت ان سے کراتے ہیں، یہ سب رہزن ہیں، وجال ہیں، کذاب ہیں خود بھی دھوکہ میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں‘‘۔ ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے کئی ایک ادارے جماعتیں اور شخصیات کوشاں ہیں۔ ملت کی فلاح و بہبود سب کا مطمع نظر بھی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اشتراک و تعاون اور تعاونو اعلی البر کی کیثیت ناپید ہے؟
یہ بات ملت کے ہر خدمت گذار اور خدمت کے لئے کوشاں فرد کو اچھی طرح گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ جس عمل، کوشش، سرگرمی اور جدوجہد کے پیچھے اخلاص و للہیت، رضائے الٰہی کی تمنا اور فلاح آخرت کارفرما ہونے کے بجائے اگر نام ونمود، دکھاوا اور ریاکاری شامل ہو جائے مخلوق کی رضا، اقتدار کی خوشی، حصول منصب کی تمنا، شہرت پسندی اور جئے جئے کار حاصل کرنے کا جذبہ ہوتو بڑے سے بڑا کارنامہ اور مجاہدہ بھی اجر اخرت کو غارت کردے گا اور اس کام میں لگی ساری محنت، دولت، صلاحیت، کوشش اور وقت کافور بن جائے گا۔ اُس شخص سے بڑھ کر بدنصیب کون ہوسکتا ہے جو بظاہر ساری زندگی دین و ملت کے لئے سرگرم عمل رہا لیکن نیت کے کھوٹ کی وجہ سے آخرت میں اجر سے محروم کردیا گیا !!۔ بدلتے ہوئے حالات اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتے کہ ملت آپس میں مزید دست وگریباں ہو، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں رہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں رہے ضرورت اس بات کی ہے ہر محاذ، ہر مسئلہ اور ہر اسٹیج سے اتحاد و اتفاق کا پیغام عام ہے اور ملت اسلامیہ، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے مسائل کو حل کرواسکے۔ اتحاد و اتفاق کی پہلی سیڑھی اخلاص و للہیت اور اجر آخرت کی تمنا ہے اور انتشار و اختراق کی اہم وجہ انانیت، نفسانیت اور تکبر ہے اور اخلاص و للہیت حصول مغفرت کا باعث ہے اور تکبر و انانیت جہنم کا ایندھن بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل خیر کی توفیق دے۔ آمین۔ ؎
ہوگیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
ائے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملّا سے نہ پوچھ