یوروپ میں مہنگائی عروج پر

   

روش کمار
روس نے فروری میں جب یوکرین پر حملہ کیا تو ساری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ اس مسئلہ پر مختلف ممالک اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ کئی ایک سربراہان مملکت نے تشویش کا اظہار کیا۔ اس جنگ کو روکنے کے مطالبات کئے گئے۔ یہاں تک کے بے شمار ملکوں کے سربراہوں نے متعدد ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کی تصاویر عالمی میڈیا میں چھائی رہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں اور بات چیت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ روس۔ یوکرین جنگ رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ روس۔ یوکرین جنگ کے بارے میں 1962ء کی کیوبا جنگ کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ جب روس نے جوہری میزائل نصب کئے تھے۔ یہ سب امریکہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس وقت جوہری جنگ کا خطرہ قریب آگیا تھا لیکن وہ خطرہ ٹل گیا تھا۔ بہرحال روس۔ یوکرین کی جنگ جاری ہے اور اب باضابطہ جوہری جنگ کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آئی ہیں کہ امریکہ نے جوہری تابکاری کے علاج کیلئے ادویات خریدنے کیلئے 290 ملین ڈالرس خرچ کئے ہیں۔ امریکہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتا ہے کہ روس ۔ یوکرین جنگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ادویات کی خریداری معمول کے مطابق ہورہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا مجموعی طور پر ایک مختلف نہج پر پہنچ چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی رہنما فی الوقت نئے جاگیردار بنے ہوئے ہیں جو دنیا کو اپنے کھیت اور اس پر ہل چلانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور زمینات بھی حاصل کررہے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ عوام کا کام صرف اور صرف سرخیاں پڑھ کر تالیاں بجانا ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر یہ عالمی رہنما بڑے بڑے لیڈران بن کر ایسے سینے فخر سے پھلا رہے ہیں جبکہ عوام کا یہ حال ہے کہ ان کی سانس اُکھڑ رہی ہیں۔ معاشی تباہی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عام لوگوں کے گھر اُجڑ گئے ہیں کیونکہ بجلی اور گیس کے ہلز ان کی کمائی اور آمدنی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔ برطانیہ میں اسے توانائی (Energy) کا بل کہا جاتا ہے۔ سردی کا موسم آرہا ہے۔ درجہ حرارت گرجائے تو گھروں کو گرم رکھنے بجلی کہاں سے آئے گی۔ ہیٹرس کیسے کام کریں گے۔ برطانیہ کے عوام ان چیزوں کو لے کر کافی پریشان ہیں۔ روس ۔ یوکرین جنگ کے نتیجہ میں گیس کی سربراہی شدید متاثر ہوگئی ہے۔ برطانوی نیشنل گرڈ کے حوالے سے خبر شائع کی جارہی ہے کہ عوام کو بجلی کٹوتی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ انہیں یومیہ 3 گھنٹے بجلی کٹوتی برداشت کرنی پڑسکتی ہے۔ اس طرح کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروںمیں ڈائیلائسیس کروا رہے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ لوگوں سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ وہ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں۔ میڈیا میں اب لوگ کہنے لگے ہیں کہ بجلی (انرجی بل) انہیں کنگال کررہا ہے، اس لئے وہ کوشش کریں گے کہ جہاں تک ہوسکے درجہ حرارت کو برداشت کریں گے اور شدید ضرورت میں ہی گھروں کو گرم رکھنے والے ہیٹرس کا استعمال کریں گے۔ روس ۔ یوکرین جنگ کے نتیجہ میں برطانیہ کا برا حال ہے۔ ان حالات نے حکومت کو یہ حکم دینے پر مجبور کردیا ہے کہ کسی کا انرجی بل 2500 پاؤنڈس سالانہ سے زیادہ نہ ہو۔ صرف اسی وجہ سے برطانوی حکومت پر ہندوستانی کرنسی میں 8.5 لاکھ کروڑ روپیوں کا خرچ آئے گا۔ تصور کریں کہ برطانوی عوام بجلی استعمال کرسکتے ہیں، اس کیلئے حکومت 8.5 لاکھ کروڑ روپئے کی سبسڈی فراہم کررہی ہے۔ انرجی بل کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کم ہوگئی ہے۔ لوگ اب خرچ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایک نیا ڈیٹا منظر عام پر آیا ہے جس کے مطابق 22% آبادی کو گھر چلانے کیلئے کمائی کے ساتھ قرض لینا پڑتا ہے اور قرض بھی مہنگا پڑتا جارہا ہے۔ وہاں مہنگائی چالیس برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ صرف بجلی کا بل ہی نہیں بلکہ ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ لوگوں نے اخراجات میں کمی لائی ہے۔ نتیجہ میں دکانات سے لے کر کمپنیوں کی بھی حالت خراب ہے۔ ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے مطابق جاریہ سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران 25 لاکھ سے زائد کمپنیاں بند ہوچکی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر چھوٹے درجہ کی کمپنیاں ہیں اور چھوٹے کاروبار ہیں جن میں 8 تا 10 لوگ کام کرتے ہیں۔ برطانیہ میں کیفے، پبس، بیکریاں اور بک اسٹورس ہر روز بند ہورہے ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ صارفین کا اعتماد 1974ء کے بعد سب سے کم ہے۔ خاص طور پر برطانیہ کا متوسط طبقہ تباہ ہوچکا ہے۔ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ امریکہ اور یوروپی ملکوں کی پابندیوں کی سیاست جنگوں کو نہیں روک سکتی۔ لوگ برباد ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ میں بجلی بل میں 300% اضافہ ہوا ہے۔ جن لوگوں کا ماہانہ بجلی بل 5 ہزار پاؤنڈس تھا، اب وہ بڑھ کر ماہانہ 35 ہزار پاؤنڈس آرہا ہے۔ اگر یوکرین جنگ کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو اس قسم کی بھیانک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وینیزویلا پر سے پابندیاں اٹھائی جاسکتی ہیں تاکہ وہ وہاں سے تیل خرید سکے۔ نومبر میں الیکشن ہے اور وہاں بھی پٹرول مہنگا ہوگیا ہے۔ ویسے بھی اوپیک کے رکن ممالک (اوپیک + ملکوں) نے خام تیل کی پیداوار کو کم کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے نتیجہ میں کروڈ آئیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور پھر سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر روز ریٹنگ ایجنسیاں اس بات کا اعلان کررہی ہیں کہ عالمی سطح پر کساد بازاری کی آمد آمد ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک ہندوستان میں بھی قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو میں مسلسل کٹوتی آرہی ہے۔ موڈیز نے ہندوستان کی جی ڈی پی 8.8% رہنے کی پیش قیاسی کی تھی۔ اب وہی موڈیز 7.7% بتا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی جی ڈی پی 8.2% فیصد کی شرح سے بڑھے گی، لیکن اب اس نے بھی جی ڈی پی کی شرح نمو کو گھٹاکر 7.4% کردیا ہے ۔ خود تجارت و ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں UNCTAD نے کہا کہ ہندوستان کی شرح جی ڈی پی گھٹ کر 5.7% رہ جائے گی جبکہ عالمی بینک کے مطابق ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار سال 2022-23ء کے دوران 7.5% کی بجائے 6.5% رہے گی۔ ہماری اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے بھی سال 2022-23ء کیلئے جی ڈی پی کی شرح 7.5% سے کم کرکے 6.8% کردی ہے۔ ان حالات میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر اضافہ ہوگا تو کیا اس کا اثر دیگر اشیاء پر نہیں پڑے گا۔ بہرحال اب سب کو پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مزید مہنگائی کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔