یوم عید

   

آج عید الفطر ہے ۔ ایک ماہ تک مسلسل ماہ رمضان کی رحمتیں ‘ برکتیں اور عظمتیں ہم پر سایہ فگن رہیں ۔ فرزندان توحید نے ایک ماہ تک روزہ ‘ نماز ‘ تراویح ‘ تلاوت قرآن مجید اور دیگر عبادات کا اہتمام کیا اور آج عید الفطر منا رہے ہیں۔ انتہائی عظیم اور رحمتوں ‘ برکتوں اور مغفرتوں والا مہینہ ہم سے جدا ہوگیا ۔ ایک ماہ تک ہم نے جس ڈسیپلن کے ساتھ زندگی گذاری تھی وہ خود ہمارے اپنے لئے مثالی رہی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ایک ماہ میں ہم نے جو ڈسیپلن اختیار کیا تھا اسی کو ہم اپنی ساری زندگی کا حصہ بنا لیں۔ سال بھر ہم اسی طرح کی زندگی گذارنے کی کوشش کریں ۔ خاص طور پر ایسے ماحول میں جبکہ ساری دنیا کورونا بحران کی وجہ سے افرا تفری کا شکار ہے اور لوگ ایک ایک سانس کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریںاور رجوع الی اللہ ہوجائیں۔ اپنے آپ کو خالق کائنات کی مرضی و منشا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ۔ اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کی جائے ۔ ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں نے زکواۃ اور فطرہ بھی ادا کیا ہے ۔ یہ ہر صاحب نصاب مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کا بھی خیال رکھے ۔ آج جبکہ ہم عید الفطر منا رہے ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے ماحول کا بھی خیال رکھیں۔ ہم اپنے عزیز و اقارب ‘ رشتہ داروں اور بہنوں بھائیوں کے علاوہ اپنے آس پاس اور پڑوس کا بطور خاص خیال رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر ایک کے گھر میں عید منائی جائے ۔ کوئی ایک گھر یا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو عید کی خوشیوں سے محروم ہوجائے ۔ ہم نے سارا مہینہ حقوق اللہ ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حقوق العباد بھی پوری مستعدی اور دیانتداری کے ساتھ ادا کریں ۔ ہم کو اس بات کا عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے ماہ رمضان المبارک میں جیسی عبادتوں والی زندگی اختیار کی تھی اسی طرح کی زندگی ہم سارا سال اختیار کرینگے ۔ اسلامی طرز پر ہی ساری زندگی گذارنا خود ہمارے اپنے لئے باعث سعادت ہوگا ۔
ہم نے روزے رکھتے ہوئے بھوک اور پیاس کا جو احساس کیا ہے اس کو ساری زندگی محسوس کریں اور دوسروں کی بھوک اور پیاس مٹانے کیلئے اپنی جانب سے حتی المقدور کوشش کریں۔ آج کورونا وباء نے جو افرا تفری پیدا کی ہے وہ قیامت صغری کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ لوگ ایک ایک سانس کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ آکسیجن اور ادویات کی تک قلت پیدا ہوگئی ہے ۔ دواخانوں میں مریضوں کے علاج کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان پہلے تو خود کو اس وباء سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن احتیاط سے کام لیں۔ بارگاہ خداوندی میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں اور جتنا ممکن ہوسکتا ہے اپنے آس پاس کے لوگوں کو اور اپنے رشتہ داروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کی جائے ۔ جو لوگ اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں ان کی ممکنہ حد تک مدد کی جائے ۔ انہیں مایوسی کا شکار ہونے نہ دیں بلکہ ان میں حرارت ایمانی کو بحال رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے ۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ جتنی ہم دوسروں کی مدد کرینگے اس سے کہیں زیادہ اللہ رب العزت ہماری مدد فرمائے گا ۔ ہم دوسروں کو مشکلات سے نکالنے کی جتنی جدوجہد کریں گے رب تبارک و تعالی ہمیں ہماری مشکلات سے نجات دلاتا رہے گا ۔ ہمیں جذبہ ایثار و قربانی کو ماہ رمضان کے بعد بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضرورت مندوں کی مدد ہمارا مستقل شیوہ ہونا چاہئے ۔ یتیموں اور بیواوں کا بطور خاص خیال رکھا جانا چاہئے ۔
ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم خیر امت ہیں۔ ہمیں اس اعزاز کے تقاضوں کی بھی پوری دیانتداری اور تندہی کے ساتھ تکمیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتہائی سنگین اور مشکل ترین دور میں ہمیں اللہ رب العزت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنی جانب سے ممکنہ حد تک کوشش کرنی چاہئے ۔ احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے ۔ اپنے رشتہ داروں اور افراد خاندان کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھتے ہوئے ان کی تکالیف اور مشکلات اگر ہوں تو انہیں دور کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے ۔ سارے ملک میں حالات کی بہتری کیلئے اور ساری انسانیت کو اس بحران اور وائرس سے نجات دلانے کیلئے بارگاہ خدا وندی میں گڑگڑا کر دعائیں کرنی چاہئے تاکہ اس مہلک اور تباہ کن وائرس سے ساری انسانیت کو نجات مل سکے ۔