یوپی۔ ڈی جی پی نے سلطان پور تصادم پر رپورٹ مانگی‘ مسلم علماؤں کا دعوی تعصب

,

   

تشدد کے لئے 52افراد پر مقدمہ درج‘ 51جس میں مسلمان ہیں جبکہ ایک غیر مصلح فرد۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب تک 10مسلمانوں کی تشدد کے ضمن میں گرفتاری عمل میں ائی ہے۔


لکھنو۔ اترپردیش ڈائرکٹر جنرل آف پولیس نے بعض علماؤں کی جانب سے ایک طرفہ کاروائی کا الزام لگانے کے بعد سلطان طور پرتشدد کے ضمن میں رپورٹ طلب کی ہے۔تشدد کے لئے 52افراد پر مقدمہ درج‘ 51جس میں مسلمان ہیں جبکہ ایک غیر مصلح فرد۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب تک 10مسلمانوں کی تشدد کے ضمن میں گرفتاری عمل میں ائی ہے۔

اس واقعہ میں کم ازکم 12لوگوں کومعمولی چوٹیں لگی ہیں۔ مسلمان عالم مہتر السلام نے کہاکہ جن لوگوں پر مقدمات درج ہوئے ہیں وہ تمام اقلیتی کمیونٹی سے ہیں۔پولیس نے ملزمین پر اقتدام قتل اور ائی پی سی کی مختلف دفعات کے علاوہ اترپردیش ریکویری برائے نقصان برائے عوامی اور خانگی املاک ایکٹ2020کے تحت مقدمات درج کئے ہیں۔

سپریڈنٹ آف پولیس سلطان پور‘ سومین برما نے کہاکہ ”سی سی ٹی وی فوٹیج اور واقعہ کے ویڈیو کلپس کی بنیاد پر 55لوگوں کی ہم نے شناخت کی ہے جس میں سے30لوگوں کو گرفتار کیاگیاہے۔

گرفتار کئے گئے لوگوں میں ایک مدرسہ کے پرنسپل اور مولوی شامل ہیں جس نے ہجوم کو جلوس پر پتھر بازی کے لئے مبینہ اکسایاتھا“۔

مذکورہ افیسر نے کہاکہ موقع کے موجود مکینوں کے بیانات بھی قلمبند کئے گئے ہیں۔ پولیس والے بھی تشدد کے دوران جن لوگوں کی گاڑیوں کونقصان پہنچا ہے اور ان کی شناخت کا اور ان پرمقدمہ درج کرنے کاکام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”دونوں فریقین تشدد میں پارٹی بنائے گئے ہیں“۔اکٹوبر10کے روز تقریبا6بجے شام کے قریب کم از کم 50لوگوں نے درگا مورتی پر مشتمل ایک جلوس نکالاتھا۔

جب یہ جلوس ابراہیم محلہ پہنچا تو اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں نے بڑی آواز کی میوزک پر اعتراض کیا اور جلوس میں موجود لوگوں سے استفسار کیا کہ ”نماز‘ چل رہی ہے کہ میوزک کی آواز دھیمی کرلیں۔بحث ہوئی جو دوگروپوں میں تصادم کی وجہہ بنی ہے۔


معاملے کا پس منظر
اکٹوبر10کے روز تقریبا6بجے شام کے قریب کم از کم 50لوگوں نے درگا مورتی پر مشتمل ایک جلوس نکالاتھا۔ جب یہ جلوس ابراہیم محلہ پہنچا تو اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں نے بڑی آواز کی میوزک پر اعتراض کیا اور جلوس میں موجود لوگوں سے استفسار کیا کہ ”نماز‘ چل رہی ہے کہ میوزک کی آواز دھیمی کرلیں۔

بحث ہوئی جو دوگروپوں میں تصادم کی وجہہ بنی ہے۔کیونکہ اکثریتی کمیونٹی کے لوگوں نے آواز کم کرنے سے انکار کردیا۔ جس کے بعد اکثریتی او راقلیتی کمیونٹیوں کی جانب سے تلواریں لہرائی گئیں‘ توڑ پھوڑ‘ نذر آتش کرنے کے واقعات پیش ائے۔

مذکورہ ہندو ہجوم نے زخمی مسلمانوں کی اس مسئلے پر بے رحمی کے ساتھ پیٹائی کی۔ ایک مسلمان کے گھر کو بھی نقصان پہنچایاگیا۔ واقعہ کے بعد پولیس نے کاروائی کی۔تاہم تشدد کے لئے 52افراد پر مقدمہ درج‘ 51جس میں مسلمان ہیں جبکہ ایک غیر مصلح فرد۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اب تک 10مسلمانوں کی تشدد کے ضمن میں گرفتاری عمل میں ائی ہے۔سوشیل میڈیاپر گشت کررہے ایک ویڈیوہندو ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس افیسر کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ”چن چن کے ماروں گا‘ مٹی میں ملادوں گا او ران کے گھر بلڈوزر چلا دونگا“

ہجوم پولیس والے کی داد وتحسین کرتے ہوئے دیکھائی دے رہا ہے۔