یوپی میں ٹکر کی لڑائی

   

صباء نقوی
اترپردیش کی 403 اسمبلی نشستوں میں سے 102 نشستیں مشرقی اترپردیش میں ہیں۔ 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں مشرقی یوپی کی ان نشستوں میں سے بی جے پی نے 69 ، سماج وادی پارٹی نے 13 اور بی ایس پی نے 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، مابقی نشستیں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں میں تقسیم ہوگئیں۔ ان چھوٹی پارٹیوں کو ذیلی ذاتوں یا ذیلی طبقات کی تائید حاصل رہتی ہے۔ دوسری جانب گورکھپور میں یوگی آدتیہ ناتھ ایک طاقتور اور بااثر لیڈر سمجھے جاتے ہیں جو یہاں سے 200 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مشرقی اترپردیش کے اسمبلی حلقوں میں چاکپا، چنار اور مغل سرائے کافی اہمیت کے حامل حلقے ہیں۔ ان تینوں پر 2017ء کے انتخابات میں بی جے پی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ اس سے پہلے ایس پی اور بی ایس پی کے امیدوار منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ میں نے بابری بازار کا دورہ کرکے عوام کے رجحانات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک مصروف ترین بازار ہے جہاں سے روزانہ 50 دیہاتوں کیلئے اشیائے ضروریہ پہنچائے جاتی ہیں۔ راجندر ایک بلند قامت شخص ہے جو یومیہ اُجرت پر کام کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔ پچھلے 5 انتخابات میں راجندر نے مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ وہ ایک جاٹو دلت ہے۔ اس ذات سے بی ایس پی سربراہ مایاوتی بھی تعلق رکھتی ہیں اور مشرقی اترپردیش میں جاٹو دلت کو ’’ہریجن‘‘ کہا جاتا ہے۔ بابری بازار میں مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس مرتبہ اپنی دلچسپی اور مفادات کو سماج وادی پارٹی کے حق میں منتقل کررہا ہے اور پہلی مرتبہ اسے یقین ہوگیا ہے کہ مایاوتی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس نے اکھیلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کو اس لئے چنا ہے کیونکہ ایس پی ہی بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس کے پاس ہی بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ راجندر نے بتایا ہے کہ وہ مودی اور یوگی کے خلاف ہے کیونکہ دونوں غریب دشمن ہیں۔ انہیں غریبوں کی بہبود کی کوئی پرواہ نہیں، عام آدمی کو مودی اور یوگی دونوں نے بہت پریشان کیا، غریب مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اترپردیش کی آبادی میں دلتوں کی آبادی 21% ہے۔ مشرقی اترپردیش کے بعض اسمبلی حلقوں میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ویسے بھی دلتوں کی نصف تعداد جاٹو دلتوں کی ہے لیکن مایاوتی کا اثر ان دلتوں پر بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مایاوتی کی بی ایس پی نے 24% ووٹ حاصل کئے۔ اگرچہ اسے صرف 8 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ بی جے پی کی کامیابی میں اعلیٰ ذات کے ساتھ ساتھ کمزور و پسماندہ طبقات کے علاوہ غیرجاٹو دلتوں کے ووٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ بابری بازار سے دو گھنٹے کار میں سفر کرتے ہوئے مَیں غازی پور پہنچی۔ یہ پوروآنچل علاقہ ہے جہاں میری ملاقات دلت مساہار ذیلی ذات سے تعلق رکھنے والے گلوبنواسی سے ہوئی۔ اس نے پچھلے سال حکومت کی جانب سے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کی گئی 1.20 لاکھ روپئے کی رقم سے گھر تعمیر کیا۔ وہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی رعایتی قیمتوں سے بھی کافی خوش ہے۔ بنواسی نے بتایا کہ اس کے خاندان کا تعلق ضلع جونپور سے ہے جہاں حکومت کی رقمی امداد سے اس کی کمیونٹی کیلئے 50 مکانات تعمیر کئے گئے ہیں، ایسے میں وہ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے والا ہے۔
آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ریاست کی آبادی میں او بی سیز (دیگر پسماندہ طبقات) 44% ہیں اور اس مرتبہ یہ طبقات بی جے پی سے بہت ناراض ہیں۔ بی جے پی کے تعلق سے او بی سیز میں برہمی ہے۔ ان میں 10.5% MBCs انتہائی پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ریاست کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت مشرقی اترپردیش میں MBCs کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ مغل سرائے کے ایک گاؤں میں بائیک میکانک ہیرا لال پرجاپتی نے بتایا کہ اس کے لوگ برسوں سے بی جے پی کی تائید کرتے آرہے ہیں لیکن اب ماحول تبدیل ہورہا ہے۔ بھگوان کو بھی پسند نہیں مزدور کو کام نہیں مل رہا ہے۔ اس سلسلے میں اُس نے مزید بتایا کہ مودی اور یوگی کے دور میں بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔ ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔ غریبوں کی کوئی سننے والا نہیں لہذا اس کے گاؤں اور قریبی دیہاتوں میں حکومت کے تعلق سے ناراضگی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی لڑکھڑا سکتی ہے۔ پرجاپتی جس ٹی اسٹال پر اپنا تجزیہ پیش کررہا تھا، وہاں اس اسٹال پر ایک ہجوم جمع تھا۔ ایسے میں ٹھاکروں کی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے راکیش کمار سنگھ نے جو ایک کوچنگ سنٹر چلاتے ہیں، بتایا کہ ریاست میں بی جے پی کیلئے تائید و حمایت پائی جاتی ہے، کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران بنیادی سہولتوں اور سڑکوں وغیرہ میں بہتری آئی ہے۔ واضح رہے کہ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ ٹھاکر ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر اپوزیشن کا الزام ہے کہ وہ تدریس اور پولیس کی ملازمتیں ٹھاکروں کو دے رہے ہیں اور ریاست میں ’’ٹھاکر راج‘‘ چلا رہے ہیں۔ ایک خاتون خانہ ببیتا ٹھاکر اس بارے میں کہتی ہیں کہ مودی جی مسلم خواتین کی بھی حمایت کرتے ہیں، ایسے میں ہمیں ان کی تائید کرنی چاہئے۔ وہ دراصل طلاق ثلاثہ کی منسوخی کا حوالہ دے رہی تھیں جس کا کریڈیٹ وزیراعظم مودی کو جاتا ہے۔ اس مقام پر رام لال یادو ایک مشہور ٹی اسٹال چلاتے ہیں اور یومیہ 5,000 روپئے تک بہ آسانی کما لیتے ہیں، وہ اکھلیش یادو کے وفادار ہیں (کیونکہ اکھلیش اور رام لال دونوں ایک ہی ذات سے تعلق رکھتے ہیں) وہ موقع بہ موقع عوام کے سامنے بی جے پی کی ناقص پالیسیوں اور تباہ کن اقدامات پیش کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرکز میں مودی اور یوپی میں یوگی نے سب کچھ تباہ کردیا۔ وہ ان کی چائے کی چسکیاں لینے والے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے از راہ مزاح کہتے ہیں۔ یہ امیت شاہ کے رشتہ دار ساہوکار ہیں۔ اسی طرح کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کس طرح عوام کی وفاداریاں خریدتی ہے۔ وہاں موجود تمام لوگ یہ کہتے ہوئے بے ساختہ ہنس دیئے کہ ’’ذات بتاؤ اور ووٹ جان جاؤ‘‘۔ منوج کمار پانڈے ایک برہمن ہیں۔ وہ صاف طور پر کہتے ہیں کہ اس مرتبہ بی جے پی نہیں۔ پانڈے ایک چھوٹی زرعی آمدنی پر گذارا کرتے ہیں اور ملازمت ملنے کے انہیں دور دور تک کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ ان کی عمر تقریباً 30 سال ہے۔ اشوک کمار پانڈے جو ایک سرکاری ملازم ہیں اور جنہوں نے پنچایت انتخابات کے دوران الیکشن ڈیوٹی انجام دی تھی (یہ انتخابات 9 ماہ قبل منعقد ہوئے تھے) بتایا کہ وہ ہنوز ایک بی جے پی ووٹر رہیں گے۔ اس دوران علاقہ میں ٹرک چلانے والے بسنت موریہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اب کی بار بی جے پی کا لالی پاپ کام نہیں چلے گا۔ ان لوگوں نے ہمیں پسماندہ کردیا۔ یہ حکومت ٹھاکروں اور بابوؤں کی جانب سے چلائی جارہی ہے۔ مزدور شدید متاثر ہورہے ہیں۔ مزدوروں کو صرف ایک دن کا کام ملتا ہے اور 300 روپئے اُجرت حاصل ہوتی ہے تاہم وہ 10 دنوں تک کوئی کام نہیں کرتے۔ انہیں کوئی کام نہیں دیا جاتا۔
بی جے پی کے امکانات پر یوگی حکومت کے او بی سیز وزراء سوامی پرساد موریہ اور دیگر کے پارٹی کو خیرباد کہنے سے بہت اثر پڑا ہے کیونکہ پچھلے انتخابات میں او بی سیز نے کثیر تعداد میں بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کئے۔ اگرچہ او بی سیز کس کی تائید کریں، اس پر منقسم ہیں، لیکن راج بھار ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی سے دور ہوچکے ہیں۔ شتی پرکاش سنگھ سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (SBSP) کے ترجمان ہیں۔ مسٹر اوم پرکاش راج بھار اس کے صدر ہیں۔ وہ وزیراعظم نریندر مودی کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیراعظم ایک بہروپیہ ہیں اور پوروآنچل علاقہ میں بی جے پی کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے۔ بہرحال مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ یوپی میں ٹکر کی لڑائی ہے۔