یو پی اے کی صدارت اور شرد پوار

   

ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
یو پی اے کی صدارت اور شرد پوار
کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی کی گرتی ہوئی صحت اور ذمہ داریوں کی تکمیل سے دوری کے نتیجہ میں ملک میں اپوزیشن اتحاد یو پی اے کی صدارت پر کسی حرکیاتی اور فعال و قابل قبول لیڈر کے انتخاب کی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ این سی پی کے سربراہ شرد پوار کو یہ ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ۔ شرد پوار مہاراشٹرا کے مرد آہن کہے جاتے ہیں اور انہیں سیاست کا وسیع تجربہ ہے ۔ وہ نہ صرف مہاراشٹرا کے چیف منسٹر رہے ہیں بلکہ وہ مرکز میں بھی کئی اہم قلمدان سنبھال چکے ہیں۔ ان کو ہندوستان کی سیاست کا ایک اہم مہرہ بھی کہا جاتا ہے ۔ جب انہوں نے سونیا گاندھی کے بیرونی نژاد ہونے کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے این سی پی کا قیام عمل میں لایا تھا اس وقت سے وہ کانگریس سے دور ہیں ۔ مہاراشٹرا کی سیاست میں بھی بتدریج ان کی سرگرمی کم ہوتی گئی تھی ۔ یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ مہاراشٹرا کی سیاست پر ان کی جو گرفت ہے وہ بھی کمزور ہوگئی ہے ۔ تاہم حالیہ چند مہینوں میں شرد پوار نے ایک بار پھر اپنی سیاسی اہمیت اور افادیت کو منوالیا ہے ۔ خاص طور پر مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کے بعد ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے انہوں نے شیوسینا سے جو اتحاد کیا ہے اور کانگریس کو بھی اس اتحاد میں شامل کرتے ہوئے مہاراشٹرا میں جو اتحادی حکومت قائم کی ہے اس سے ان کی مہارت کو سارے ملک نے ایک طرح سے محسوس کرلیا ہے ۔ شرد پوار اس وقت سے زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں جب مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات سے قبل انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے انہیں نوٹس جاری کی گئی تھی ۔ دوسرے قائدین کی طرح شرد پوار نے مقدمات سے ڈرنے اور مدافعانہ موقف اختیار کرنے کی بجائے جو جارحانہ تیور اختیار کئے تھے اور اپنی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بی جے پی کو مہاراشٹرا کے اقتدار سے محروم رہنا پڑا ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شرد پوار میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ حلیف جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ملک میں جو سیاسی صورتحال ہے اس میں ایک مضبوط و مستحکم اپوزیشن بھی ضروری ہے اور یہ ایسا خلا ہے جس کو جلد پر کرنا ضروری ہے ۔
آج ملک کی سب سے قدیم جماعت کانگریس کا جو حال ہے وہ قابل تشویش ہی کہا جاسکتا ہے ۔ مسلسل مسائل اور انحراف کا سامنا کرتے ہوئے کانگریس کی حالت میں بہتری کی بجائے ابتری ہی پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں کانگریس کو اپنے داخلی امور پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ساری اپوزیشن جماعتوں کو بھی اگر متحد رکھنا ہے تو کانگریس کا مستحکم ہونا ضروری ہے ۔ جب تک کانگریس متحد اور مستحکم نہیں ہوتی اس وقت تک یو پی اے کی حلیف جماعتوں کو استقامت کے ساتھ حکومت کے خلاف متحد رکھنا آسان نہیں رہے گا ۔ اس صورتحال میں جو تجویز پیش کی جا رہی ہے کہ شرد پوار کو یو پی اے کا صدر نشین بنایا جاسکتا ہے وہ موجودہ صورتحال میں سب سے بہتر امکان ہی کہا جاسکتا ہے ۔ شرد پوار نہ صرف کانگریس میں بلکہ دوسری تمام سیاسی جماعتوں میں بھی اچھا اثر رکھتے ہیں۔ سبھی سے ان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں اور ان کے تجربہ اور مہارت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ ایسے میں اگر وہ ایک جامع حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے آئندہ لوک سبھا انتخابات تک یو پی اے اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں تو بی جے پی حکومت سے مقابلہ کرنے میں یو پی اے کو مدد ہی مل سکتی ہے اور اس صورت میں یو پی اے میں شامل تمام ہی جماعتوں کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں کانگریس ۔ شیوسینا اور این سی پی اگر مشترکہ مقابلہ کریں تو کوئی عجب نہیں کہ ریاست میں بی جے پی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو اور اس کی نشستوں کی تعداد گھٹ جائے ۔
کانگریس کو چاہئے کہ وہ یو پی اے اتحاد کی ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتارتے ہوئے شرد پوار کو یہ موقع دے۔ اس سے کانگریس کو اپنے داخلی مسائل اور اختلافات کو دور کرنے پر توجہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یو پی اے میں شامل جماعتوں میں جو اعتماد کا فقدان پیدا ہوا ہے اس کو بھی شرد پوار کی قیادت اور تجربہ سے بحال کیا جاسکتا ہے ۔ ملک کے طول و عرض میں جو سیاسی جماعتیں ہیں وہ کانگریس کی کمزور قیادت کی وجہ سے یو پی اے میں شامل ہونے سے پس و پیش کا شکار ہیں۔ اگر شرد پوار اس کی صدارت سنبھال لیتے ہیں تو ایسی جماعتوں کو بھی یو پی اے میں شامل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ ان امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے شرد پوار کو یو پی اے کی صدارت سونپی جاسکتی ہے ۔