یو پی میں بھی بی جے پی کو جھٹکا

   

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
یو پی میں بھی بی جے پی کو جھٹکا
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جہاں بی جے پی کو عوام کی خاص تائید نہیں مل سکی اور بمشکل تمام صرف آسام میں اپنے اقتدار کو ہی بچا پائی تھی اور ٹاملناڈو میں اس کی اتحادی حکومت کو زوال ہوگیا اور بنگال میں ساری طاقت جھونکنے کے باوجود وہ اقتدار حاصل نہیں کرسکی تھی وہیںاب بی جے پی کو اس کی اقتدار والی ریاست اترپردیش میں بھی رائے دہندوں سے جھٹکا لگا ہے ۔ یو پی میں پنچایت انتخابات ہوئے تھے جہاں سیاسی جماعتوں نے مختلف امیدواروںکی تائید کی تھی ۔ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے جو آمرانہ اور ڈکٹیٹر شپ والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ کسی اپوزیشن کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی عوام کو سوال کرنے کا موقع دینے کو تیار ہیں۔ ایسے میں انہیںپنچایت انتخابات میں عوام نے ایک جھٹکا دیتے ہوئے سماجوادی پارٹی کی تائید والے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا ہے ۔ ضلع پنچایت وارڈز میں بی جے پی کو شاندار کامیابی کی امید تھی اور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اس کے قریب تک نہیں پہونچ پائیں گی ۔ ریاست میں جملہ 3,050 ضلع پریشد وارڈز کیلئے انتخابات ہوئے تھے جن میں 2,300 کے نتائج یا رجحانات واضح ہوگئے ہیں۔ بی جے پی کے تائیدی امیدواروں کو 700 نشستوں پر سبقت یا کامیابی ملی ہے تو وہیں سماجوادی پارٹی کو 690 وارڈز میں کامیابی یا سبقت ملی ہے ۔ اس طرح سے سماجوادی پارٹی نے پنچایت انتخابات میں بی جے پی کو سخت مقابلہ دیا ہے اور وہ عوام کی تائید حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے ۔ جہاں تک مایاوتی کی قیادت والی بی ایس پی کا سوال ہے اس کے امیدواروں نے 270 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ہے یا سبقت بنائی ہوئی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو بی جے پی سے زیادہ عوامی تائید و حمایت ملی ہے ۔ سب سے زیادہ دلچسپ نتیجہ ملائم سنگھ یادو کی بھتیجی سندھیا یادو کا رہا ہے جنہوں نے مین پوری میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ وہ سابق سماجوادی ایم پی دھرمیندر یادو کی دختر ہیں اور انہیں وارڈ 18 میں سماجوادی پارٹی کے مقابلہ میں شکست ہوگئی ہے ۔اس وارڈ کا نتیجہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بی جے پی نے سماجوادی پارٹی کے اثر والے اس علاقہ میں زیادہ طاقت لگائی تھی اور یہاں عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش پوری شدت سے کی گئی تھی جسے مقامی عوام نے مسترد کردیا ہے ۔ کچھ سماجوادی پارٹی ارکان کو انتخابات سے قبل انحراف کیلئے بھی اکسایا گیا تھا اس کے باوجود یہ تمام امیدوار شکست کھا گئے ہیں اور سماجوادی پارٹی نے یہاں اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے ۔ پنچایت انتخابات کا عمل جب شروع ہوا تھا یہ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی کو مکمل عوامی تائید حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں اپوزیشن جماعتیں عوامی اعتماد سے محروم ہیں۔ بی جے پی کا یہ دعوی تھا کہ آدتیہ ناتھ حکومت کی کارکردگی سے عوام مطمئن ہیں اور وہ بی جے پی کے حق میں ہی اپنے ووٹ کا استعمال کرینگے لیکن ایسا ہوا نہیں ہے ۔ جس طرح سے ریاستی حکومت نے عوام کو مشکلات کا شکار کردیا ہے اور خاص طور پر کورونا بحران میں حکومت صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہے اس سے عوام حکومت سے ناراض ہیں اور انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہ نتائج بہت زیادہ فکرمندی کی بات ہیں کیونکہ سماجوادی پارٹی دوبارہ عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے اور خاموشی کے ساتھ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے ۔ یہ نتائج بی جے پی کی آنکھیں کھولنے والے ہیں۔
ایک ایسے وقت جبکہ آئندہ سال ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیںاور کورونا بحران نے ریاستی عوام کو حد درجہ مشکلات کا شکار کردیا ہے اور آدتیہ ناتھ کی حکومت عوام کیلئے کچھ نہیں کر رہی ہے اور عوام کو راحت پہونچانے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ایسے میں یہ نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے جہاں بی جے پی کیڈر کے حوصلے پست ہونگے اور وہ مایوسی کا شکار ہونگے وہیں اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہونگے اور ان کے کیڈر میں نیا جوش و خروش پیدا ہوگا ۔ ان نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماجوادی پارٹی کو اپنی کمر کس لینے کی ضرورت ہے اور آئندہ سال کے اسمبلی انتخابات کیلئے پوری سنجیدگی کے ساتھ تیاری کرتے ہوئے اپنی تیاریاںشروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بی جے پی کو سبق سکھایا جاسکے ۔