یو پی میں کانگریس کو سماجوادی کی پیشکش

   

نازاں ہیں بہت لوگ زرو مال پہ اپنے
کیا کیجئے یہ رسم مگر عام بہت ہے
اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور ہر گذرتا دن انتخابات کی تیاریوں میں اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ایسا لگتا ہے کہ کافی تاخیر کے بعد کانگریس اور انڈیا اتحاد میںشامل جماعتوں نے حرکت کرنی شروع کردی ہے ۔ کانگریس اور دوسری علاقائی جماعتوں کے مابین نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر اختلافات پائے جاتے تھے ۔ کئی جماعتوں نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کی بجائے اپنی اپنی ریاست میں تنہا مقابلہ کرنے کے ارادے بھی ظاہر کردئے ہیں۔ ان میںممتابنرجی کی ترنمول کانگریس سب سے آگے ہے ۔ ممتابنرجی نے کانگریس کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ بنگال میں بی جے پی سے تنہا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح بہار میں بھی اس اتحاد کو جھٹکا لگا ہے کیونکہ نتیش کمار نے مہا گٹھ بندھن اور انڈیا اتحاد سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہو ںنے این ڈی اے میں و اپسی اختیار کرلی ہے ۔ کانگریس کے خلاف اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے تیور بھی ٹھیک نہیں تھے اور اکھیلیش یادو بھی کانگریس کے تعلق سے لب کشائی کرنے لگے تھے ۔ اترپردیش میں تاہم صورتحال میں اچانک تبدیلی آئی ہے ۔ حکومت کی جانب سے چودھری چرن سنگھ کو بھارت رتن اعزاز کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد ان کے پوتے اور راشٹریہ لوک دل ( آر ایل ڈی ) کے سربراہ جئینت چودھری نے این ڈی اے میں شمولیت کے ارادے ظاہر کئے ہیں۔ وہ بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی تعریفیں کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی کیلئے اب اترپردیش میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کا ہی راستہ رہ گیا ہے ۔ اکھیلیش یادو آر ایل ڈی سے اتحاد کے معاملے میں پرجوش تھے تاہم انہیں اس معاملے میںجھٹکا لگا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی سے اتحاد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ایسے میںاب ان کیلئے کانگریس ہی شائد واحد راستہ رہ گیا ہے ۔ کانگریس اور سماجوادی پارٹی اب ایک دوسرے کیلئے مجبوری بھی اور ضروری بھی بن گئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی مستحکم موقف رکھتی ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں اسے ریاست سے 72 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ بی جے پی کو اس بار اتنی تعداد میں نشستیں ملنے کی امید نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوجائے اور ووٹ تقسیم ہونے نہ پائیں۔ اترپردیش میں بی جے پی رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کے بعد سے پراعتماد ہونے لگی ہے ۔ اس نے ساتھ ہی جئینت چودھری کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے ۔ علاوہ ازیں بی ایس پی سربراہ مایاوتی ریاست میں بی جے پی کیلئے میدان ہموار کرنے کیلئے بھی شہرت رکھتی ہیں۔ وہ بالواسطہ طور پر کئی مواقع پر بی جے پی کی مدد کرچکی ہیں ۔ اس کے باوجود اگر کانگریس اور سماجوادی پارٹی میں مستحکم اتحاد ہوجاتا ہے تو بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سماجوادی پارٹی سربراہ اکھیلیش یادو نے اپنے موقف میں قدرے لچک پیدا کی ہے اور انہوں نے ریاست میں کانگریس کیلئے 15 لوک سبھا نشستوں کی پیشکش کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس پیشکش پر کانگریس تیار ہوجاتی ہے تو وہ ریاست میںراہول گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا میں بھی حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ہی جماعتوں کیلئے یہ ایک اچھی شروعات ہوئی ہے ۔ اب اس شروعات کو آگے بڑھانا اور منطقی انجام تک پہونچانا دونوں جماعتوں کے سینئر اور ذمہ دار قائدین کا کام ہے جس میں غفلت نہیں ہونی چاہئے ۔
اگر کانگریس سماجوادی پارٹی کی پیشکش کے مطابق 15 حلقوں سے مقابلہ کیلئے تیار ہوجاتی ہے تو اس معاملے کو جلد قطعیت دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ اگر وہ مزید کچھ نشستوں کیلئے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اس کو بھی جلد مکمل کرنا چاہئے ۔ دونوں ہی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ نرم اور لچکدار موقف اختیار کریں۔ سخت گیر رویہ اور موقف کسی کیلئے بھی سودمند نہیںہوسکتا ۔ دونوں ہی جماعتوں کو اپنی مشترکہ حریف بی جے پی کو شکست دینے کے ایجنڈہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے ۔ اگر یو پی میںمفاہمت پرسکون ہوجاتی ہے تو اس کے دوسری ریاستوں میںمذاکرات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔