یہ آئینہ ہے صداقت بیان کرتا ہے

,

   

مودی امریکہ میں …استقبال اور احتجاج ایک ساتھ
اپوزیشن اتحاد … دیر آئد درست آئد

رشیدالدین
وقت ہر کسی کا یکساں نہیں ہوتا، حالات کے ساتھ ساتھ صورتحال تبدیل ہوتی ہے۔ نریندر مودی کے چیف منسٹر گجرات کے وقت داخلہ پر پابندی لیکن آج وزیراعظم کی حیثیت سے سرکاری مہمان۔ نریندر مودی امریکہ کے دورہ پر کیا گئے ملک میں گودی میڈیا اور بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے بناوٹی جشن کا ماحول پیدا کردیا ۔ جیسے مودی نے دنیا کو فتح کرلیا ہو۔ بی جے پی اور گودی میڈیا کیلئے نریندر مودی ’’وشوا گرو‘‘ یعنی ورلڈ گرو کا درجہ رکھتے ہیں اور دورہ امریکہ کو کامیابیوں سے بھرپور ثابت کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ دنیا نے وہ وقت بھولا نہیں ہے جب گجرات فسادات کے بعد امریکہ نے نریندر مودی کے داخلہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ مودی کو ویزا جاری کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد مودی کو امریکہ کا انٹری کارڈ مل گیا لیکن گجرات مظلوموں کے خون کے دھبے دامن پر برقرار ہیں۔ دنیا نے آج تک ایسا ڈیٹرجنٹ تیار نہیں کیا جو نریندر مودی کے دامن پر لگے داغ دھو سکے۔ اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے دورہ امریکہ کو ایک کارنامہ کے طور پر پیش کیا گیا لیکن جب وشوا گرو نیویارک پہنچے تو استقبال کیلئے صرف ہندوستانی سفارتکار کے علاوہ کوئی نہیں تھا ۔ یہ وشوا گرو کا احترام ہے یا پھر کچھ اور اس کا فیصلہ ہم عوام پر چھوڑتے ہیں۔ دراصل احترام کا تعلق شخصیت اور اس کی صلاحیتوں سے ہوتا ہے ۔ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو 1949 اور 1961 ء میں امریکہ کے دورہ پر گئے تو اس وقت کے صدر امریکہ نے ایرپورٹ پہنچ کر ان کا استقبال کیا تھا۔ نریندر مودی کے حامی اور چاٹو کار اینکرس کے علاوہ ٹی وی چیانلس پر پاپا کی پریاں لاکھ دعوے کرلیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آمد سے قبل ہی مودی کی مخالفت شروع ہوگئی ۔ امریکی سرکاری ادارہ نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مذہبی آزادی سلب کرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ جاری کی۔ امریکہ کے 75 ڈیموکریٹ ارکان پارلیمنٹ نے صدر جوبائیڈن کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے انسانی حقوق ، مذہبی آزادی اور سیول سوسائٹی پر حملوں کو موضوع گفتگو بنانے کی اپیل کی۔ مودی امریکہ کیا پہنچے سرکاری اور زعفرانی میڈیا نے امریکہ میں جشن کا ماحول پیش کیا جبکہ جو ویڈیو دکھایا گیا وہ کسی تفریحی مقام پر سیاحوں کا جشن تھا۔ نیویارک اور واشنگٹن میں مخالف مودی مظاہروں کا ہندوستانی میڈیا نے بلیک آوٹ کیا لیکن دنیا بھر میں مخالف مودی مظاہروں کو دیکھا گیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ نریندر مودی کی مہمان نوازی اسی شخص نے کی جن کے خلاف مودی نے امریکہ پہنچ کر مہم چلائی تھی۔ 2019 ء میں امریکہ کے ہیوسٹن میں ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ لگایا تھا اور آج اسی شخص کی تعریف کر رہے ہیں جن کی مخالفت کی تھی۔ دورہ امریکہ کے دوران مودی کو اپنے جگری دوست ڈونالڈ ٹرمپ کا خیال بھی نہیں آیا جو مختلف الزامات کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بائیڈن بھی ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار ‘‘ کے نعرہ کو شائد ہی بھول پائیں۔ وزیراعظم کا دورہ کس حد تک کامیاب رہا ، اس کا اندازہ دورہ سے واپسی کے بعد دونوں ممالک کے رشتوں سے ہوجائے گا۔ ہندوستان سیکولر اور جمہوری ملک ہے لیکن مودی کے نزدیک ہندو راشٹر بن چکا ہے ۔ صدر بائیڈن اور ان کی اہلیہ کو مودی نے جو تحائف پیش کئے ان میں ہندوتوا کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ فرسٹ لیڈی کو گرین ڈائمنڈ اور ساتھ میں صندل کا خوبصورت باکس پیش کیا گیا جس میں ایک مورتی اور پوجا پا ٹ میں استعمال ہونے والی اشیاء شامل تھیں۔ ساتھ میں اپنشد کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحفہ کو مذہبی رنگ دینے کی کیا ضرورت تھی ۔ آخر دنیا کو مودی کیا پیام دینا چاہتے ہیں ۔ جوبائیڈن نے جواب میں امریکہ کے تاریخی مقامات کی کتابیں حوالے کیں ۔ انہوں نے عیسائی طبقہ کی کوئی مذہبی علامت بطور تحفہ پیش نہیں کی۔ صندل کا باکس راجستھان کے فنکار نے تیار کیا اور یہ صندل کرناٹک کے میسور شہر کا ہے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ٹیپو سلطان کی سرزمین کا صندل حاصل کرنا پڑا۔ میسور کے نام کے ساتھ ہی ٹیپو سلطان کا تصور ذہن میں اجاگر ہوجاتا ہے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی کو چاہئے تھا کہ وہ کسی قومی یادگار کی علامت کو بطور تحفہ پیش کرتے لیکن ان سے ایسی توقع کرنا فضول ہے ۔ ٹیپو سلطان سے نفرت اور میسور کے صندل سے محبت، عجیب تضاد ہے۔ وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل راہول گاندھی کا دورہ بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ نریندر مودی کے خلاف امریکہ میں جو بھی مظاہرے ہوئے ان کے لئے راہول گاندھی کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔ گودی میڈیا پر احتجاج میں شریک افراد کے ساتھ راہول گاندھی کی تصاویر وائرل کی جارہی ہیں۔ چلو اچھا ہوا کہ بی جے پی نے امریکہ میں راہول گاندھی کی طاقت اور اثر کو تسلیم کیا ہے ۔ ہندوستان میں جنہیں پپو اور امول بے بی اور طرح طرح کے القاب سے نوازا گیا لیکن امریکہ میں ان کے اشارہ پر وزیراعظم کے خلاف احتجاج کا الزام مضحکہ خیز ہے۔ ابھی تو صرف احتجاج کے لئے راہول گاندھی کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ، ہوسکتا ہے کہ بعد میں ڈیموکریٹ ارکان پارلیمنٹ کے مکتوب اور سرکاری کمیٹی کی مخالف مودی حکومت رپورٹ کے لئے بھی راہول گاندھی کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے بارے میں مودی حکومت کو امریکہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے، جہاں اظہار خیال اور اظہار رائے پر پابندی نہیں۔ امریکہ میں ایک سابق صدر کے خلاف بدعنوانیوں کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے لیکن وشوا گرو کی حکومت میں اس کا تصور بھی محال ہے۔
نریندر مودی نے ہندوستان میں تو کبھی میڈیا کے سوالات کا سامنا نہیں کیا کیونکہ مین اسٹریم کا تقریباً پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے اور وہ کوئی اختلافی سوال کرنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ نریندر مودی نے امریکہ میں بھی یہی سمجھا اور بائیڈن سے ملاقات کے وقت میڈیا کے ایک سوال کا سامنا کیا لیکن یہ سوال مودی کے لئے مہنگا ثابت ہوا کیونکہ خاتون صحافی نے مودی کو آئینہ دکھایا۔ انسانی حقوق اور مسلمانوں پر مظالم کے معاملہ میں سوال پر مودی کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہوگیا ۔ لیکن انہوں نے اصل سوال کا راست جواب دینے کے بجائے وہی روایتی جملہ بازی سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے امریکہ اور ہندوستان کی جمہوریتوں کو یکساں قرار دینے کی کوشش کی ۔ مذہب ، ذات پات اور علاقہ کی بنیاد پر ہندوستان میں کسی بھی امتیاز اور بھید بھاؤ سے انکار کیا ۔ مودی امریکہ میں جس وقت یہ بیان دے رہے تھے ، ہندوستان میں بی جے پی زیر اقتدار اترا کھنڈ میں مسلمانوں کو عیدالاضحیٰ منانے کے خلاف دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ مودی شائد بی جے پی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ گزشتہ چند دنوں سے جاری مظالم اور امتیازی سلوک کو بھول چکے ہیں۔ اترا کھنڈ میں مسلمانوں کاسماجی اور تجارتی بائیکاٹ کیا گیا اور کئی علاقوں سے مسلمان نقل مکانی کے لئے مجبور ہوگئے ۔ اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک ظاہر ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ملک میں فرقہ پرست عناصر کا امتیازی سلوک اپنی جگہ ہے لیکن حکومت نے بھی مسلمانوں پر کوئی مہربانی نہیں کی ۔ ملک میں بی جے پی کا ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہے اور نہ مرکزی کابینہ میں مسلم نمائندگی موجود ہے۔ بی جے پی ریاستوں میں تبدیلیٔ مذہب کے خلاف قانون سازی ، حجاب پر پابندی ، عبادتگاہوں میں داخلہ سے روکنا اور کرناٹک میں مسلم تحفظات کے خاتمہ جیسے اقدامات مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں تو اور کیا ہے ۔ ماب لنچنگ اور فسادات کے خاطیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ گجرات فسادات جو نریندر مودی کی ناک کے نیچے ہوئے تھے ، وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک تھا یا پھر اسے عزت افزائی اور احترام سمجھا جائے۔ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات اور داستانوں پر ایک نہیں کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں۔ دوسری طرف مشن 2024 ء کے تحت اپوزیشن جماعتوں کے قومی سطح پر اتحاد کی مساعی کا بہار کے پٹنہ سے آغاز ہوا۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے قومی سطح پر بی جے پی کو شکست دینے کیلئے اتحاد کا جو نعرہ لگایا ہے ، اس کی تقریباً 15 سے زائد اہم قومی اور علاقائی پارٹیوں نے تائید کی ہے۔ گزشتہ دو میعادوں سے مرکز میں نریندر مودی حکومت پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا اور منقسم اپوزیشن کا بی جے پی فائدہ اٹھاتی رہی۔دیر آئد درست آئد کے مصداق سیکولر اور جمہوری اصولوں پر یقین رکھنے والی اپوزیشن پارٹیوں نے ملک کو فرقہ پرستی اور نفرت سے نجات دلانے کی ٹھان لی ہے۔ پٹنہ میں اپوزیشن کا اجلاس بہتر شروعات ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ اتحاد لوک سبھا الیکشن تک برقرار رہے۔ اتحاد کے شرائط میں علاقائی سطح پر مقامی جماعتوں کی تائید اور قومی سطح پر کانگریس کی قیادت کو تسلیم کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کے بعض کٹر مخالفین نے بھی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ آئینہ ہے صداقت بیان کرتا ہے
کہ اس کے آگے اداکاریاں نہیں چلتیں