یہ حال ہو تو کون عدالت میں جائے گا

,

   

بابری مسجد فیصلہ … 3 ججس کو حکومت کا انعام
نفرت کی سیاست آخر کب تک ؟

رشیدالدین
عدلیہ ، عاملہ اور مقننہ کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک ستون بھی کمزور ہوجائے تو جمہوریت کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ آزادی کے بعد سے ایسے کئی مراحل اور تبدیلیاں رونما ہوئیں جب حکومتوں کو عاملہ اور مقننہ پر کنٹرول کرتے دیکھا گیا لیکن عدلیہ نے اپنی آزادی اور غیر جانبداری کو برقرار رکھا۔ جب کبھی مقننہ اور عاملہ نے حدود سے تجاوز کیا ، عدلیہ نے اسپیڈ بریکر کا کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو عدلیہ سے ہر دور میں امید وابستہ رہی ہے۔ بعض خوش فہم افراد صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیتے ہیں لیکن وہ صحافت اور اس کے اصول آج باقی کہاں رہے۔ نریندر مودی حکومت نے میڈیا کو بھی یرغمال بنالیا اور گودی میڈیا اور چاٹوکار اینکرس کے سواء کچھ نہیں ہے۔ جس چیانل اور اخبار نے حکومت سے سوالات کئے ، ان کے اطراف گھیرا تنگ کردیا گیا۔ انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ میڈیا کو مودی کے بھجن منڈلی میں تبدیل کردیا گیا۔ ہندوستان نے ایمرجنسی کے حالات کو بھی دیکھا جو تاریخ کے سیاہ دور کی طرح یاد کئے جاتے ہیں لیکن گزشتہ 8 برسوں سے ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی کے حالات ہیں۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مودی حکومت نے ایمرجنسی سے بدتر حالات پیدا کردیئے ہیں۔ عاملہ اور مقننہ تو حکومت کے کنٹرول میں ہیں لیکن پہلی مرتبہ عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے اور غیر جانبداری کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی۔ عدلیہ پر کنٹرول کی کوشش سے نہ صرف عدلیہ بلکہ ججس کی ساکھ متاثر ہونے لگی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عدلیہ پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے تو پھر جمہوریت اور انصاف کا تصور ختم ہوجائے گا۔ ججس کے تقررات کے معاملہ میں حکومت اور سپریم کورٹ میں راست ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عدلیہ سے حکومت خوف کھاتی تھی۔ غیر دستوری طور پر معزول کی گئی حکومتوں کو عدلیہ نے بحال کیا تھا۔ ہائیکورٹ ہو کہ سپریم کورٹ ججس ایسے تھے جن کی ایمانداری اور اصول پسندی مسلمہ تھی لیکن آج ججس اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بازآبادکاری کے عہدوں کے خواہشمند ہیں جس کا اثر ان کے فیصلوں پر پڑسکتا ہے۔ ججس کو کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس کے نتیجہ میں ان کے سابق فیصلوں پر آنچ آئے۔ لوگ فیصلوں پر انگلی اٹھائیں یا پھر سوال کرنے لگیں۔ جب کسی بھی فیصلہ پر عوام کی جانب سے شبہات کا اظہار ہونے لگے تو سمجھ جایئے کہ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری سلب کرلی گئی ہے۔ عدلیہ کے انصاف پر شبہات کی گنجائش نہ ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب انصاف کے ادارہ سے وابستہ افراد یعنی ججس کسی لالچ کا شکار نہ ہوں۔ عدلیہ کا اصول بھی یہی ہے کہ کسی بھی دباؤ کو قبول نہ کریں اور نہ کسی پیشکش پر راضی ہوجائیں۔جن ججس نے اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے تاریخ ساز فیصلے سنائے ، آج بھی عوام کے دلوں میں ان کے لئے جگہ ہے۔ اگر ججس حکومت کے انعام و اکرام کو قبول کرلیں تو ان کے فیصلوں پر شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ یوں تو سابق میں ریٹائرڈ ججس کو حکومتوںکی جانب سے اہم عہدوں پر فائز کرنے کی مثالیں موجود ہیں لیکن بابری مسجد مقدمہ کے ججس کو جس انداز میں عہدوں پر فائز کیا گیا، اسے مسجد کی اراضی ، مندر کے حوالے کرنے کے انعام کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ بابری مسجد اراضی مقدمہ کا فیصلہ آتے ہی عوام کو یقین ہوچکا تھا کہ حکومت کے تحریر کردہ فیصلہ پر ججس نے دستخط کردی ہے۔ بابری مسجد کے حق میں دستاویزی شواہد اور ثبوت کے باوجود سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اراضی مندر کے حوالے کردی۔ عدالت نے بابری مسجد کی شہادت کو غیر قانونی تسلیم کیا ۔ مسجد میں مورتیاں بٹھانے کو تسلیم کیا گیا ، حتیٰ کہ مسجد کے وجود پر بھی عدالت کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ فیصلہ کے بعد عوام حکومت کی مداخلت پر مباحث میں مصروف تھے کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کی رکنیت نے شبہات کو درست ثابت کردیا۔ بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیر قیادت پانچ رکنی دستوری بنچ نے سنایا تھا۔ جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس وائی چندر چوڑ چیف جسٹس کے عہدہ تک پہنچے۔ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر بھی بنچ کا حصہ تھے اور فیصلہ متفقہ طور پر آیا ۔ پانچ ججس میں چار وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے اور ان میں سے تین کو حکومت نے انعام واکرام سے نوازا۔ رنجن گوگوئی کو سبکدوشی کے چار ماہ میں راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا گیا ۔ جسٹس اشوک بھوشن 4 جولائی 2021 ء کو ریٹائر ہوئے اور 8 نومبر 2021 ء کو نیشنل کمپنی لاء اپلیٹ ٹریبونل کے صدرنشین مقرر کئے گئے ۔ بنچ میں شامل واحد مسلم جج جسٹس عبدالنذیر جاریہ سال 4 جنوری کو وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور دوسرے ماہ یعنی فروری میں انہیں آندھراپردیش کا گورنر مقرر کیا گیا۔ جسٹس عبدالنذیر نوٹ بندی کے حق میں فیصلہ دینے والے چار رکنی بنچ میں شامل تھے۔ جسٹس عبدالنذیر کو گورنر مقرر کئے جانے کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث چھڑگئی ہے کہ تین ججس کو اہم عہدوں پر فائز کیا جانا محض اتفاق ہے یا پھر منصوبہ بند حکمت عملی ۔ یوں تو سپریم کورٹ کے اور بھی کئی ججس اس مدت میں ریٹائر ہوئے لیکن انہیں انعام نہیں دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تینوں ججس حکومت کی مہربانی اور انعام کو قبول نہ کرتے تاکہ عدلیہ کی عظمت اور وقار بلند ہوتا۔ بابری مسجد مقدمہ اس قدر حساس تھا کہ حکومت کے حق میں فیصلہ دینے کے بعد تمام ججس کو حکومت کی کسی بھی پیشکش کو قبول نہیں کرنا چاہئے ۔ عہدوں کو قبول کرتے ہوئے تینوں ججس نے یہ ثابت کردیا کہ فیصلہ عدلیہ کا نہیں بلکہ حکومت کی مرضی کا تھا۔ ججس کو انعام و اکرام کا اثر عدلیہ کے دیگر فیصلوں پر پڑسکتا ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے برسر خدمت ججس کو یہ پیام دیا گیا کہ جتنی وفاداری ہوگی ، ریٹائرمنٹ کے بعد اتنا ہی انعام دیا جائے گا ۔ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری مشکوک ہوچکی ہے۔ جن ججس کو سبکدوشی کے بعد عہدہ چاہئے وہ حکومت کے حق میں فیصلے سنائیں گے یا پھر انہیں گوشہ گمنامی کا حصہ بننا پڑے گا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بابری مسجد فیصلہ کے تین ججس پر حکومت کی مہربانی اور نوازش سے ججس میں مسابقت شروع ہوجائے گی کہ کون حکومت کو زیادہ خوش کرتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے بعد نیا عہدہ حاصل کرتا ہے۔ مودی حکومت نے عدلیہ کی انفرادیت اور آزادی و غیر جانبداری کو مشکوک بنادیا ہے اور کسی بھی فیصلہ پر اب عوام کی رائے مختلف رہے گی۔
لوک سبھا انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں ، ملک میں نفرت کی سیاست شدت اختیار کر رہی ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو حکومت کی سرپرستی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات عروج پر ہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی ریاست سے مسلم دشمنی کے واقعات کا منظر عام پر آنا معمول بن چکا ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ نفرت کی طاقتوں کو روکنے اور مزاحمت کیلئے سیاسی اور مذہبی قیادتوں میں جرأت کی کمی ہے۔ راہول گاندھی نے نفرت کے خاتمہ کے لئے کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا کی لیکن یاترا سے جن نتائج کی امید کی جارہی تھی وہ برآمد نہیں ہوئے۔ عام طور پر عوام جب باشعور ہوجاتے ہیں تو ایسی طاقتوں کو شکست ہوتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ عام آدمی بے حسی کا شکار ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے ملک میں ایک جماعتی نظام کو مضبوط کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو کنٹرول کرنے میں بی جے پی کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ 2024 عام انتخابات سے قبل اپوزیشن اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا یا نہیں ایک اہم سوال ہے ۔ حالیہ عرصہ میں راجستھان کے دو مسلم نوجوانوں کی ہریانہ میں ہلاکت ، پتنجلی پراڈکٹس کے ذریعہ دولت کمانے والے رام دیو کے متنازعہ بیانات کے علاوہ سری رام سینا کے سربراہ پرمود متالک نے جس انداز میں زہر افشانی کی ، اس پر حکومتوں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں طئے شدہ حکمت عمل کا حصہ ہیں۔ رام دیو نے مسلم حکمرانوں کے خلاف زہر افشانی کی اور مغل حکمراں آسان نشانہ ہے۔ رام دیو نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بھی زہر افشانی کی ہے۔ رام دیو کے علاوہ ایسے کئی نام نہاد مذہبی چہرے وقتاً فوقتاً اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں دکھائی دیتے ہیں۔ سری رام سینا کے سربراہ نے لو جہاد کے نام پر ایک ہندو لڑکی کے بدلہ 10 مسلم لڑکیوں کو پھنسانے کی کھلے عام اپیل کی ہے ۔ ہندو نوجوانوں کو روزگار اور مالی امداد کا بھروسہ دلایا جارہا ہے۔ کوئی مسلمان یا سیکولر ذہنیت کے حامل ہندو قائدین کوئی بیان دیں تو انہیں فوری جیل کی سلاخوں کے پیچھے کردیا جاتا ہے لیکن رام دیو ، پرمود متالک اور دوسرے نفرت کے سوداگروں پر حکمت کی مہربانی یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ تمام 2024 ء عام انتخابات کے لئے بی جے پی کی انتخابی مہم ہے۔ راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہو تو کون عدالت میں جائے گا