یہ شرارت ہے سیاست ہے کہ سازش کوئی

,

   

گجرات ڈاکیومنٹری … بی جے پی کے فائدہ کی مہم تو نہیں
راہول گاندھی کی محنت رنگ لائے گی

رشیدالدین
گجرات فسادات پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری فلم نے ہندوستان میں نئی سیاسی جنگ چھیڑدی ہے ۔ ملک کی سیاست میں اقدار اور اصولوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور مثبت سے زیادہ منفی مہم فائدہ مند ثابت ہورہی ہے۔ سیاست کے زوال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کارناموں کے بجائے جرائم اور مجرمانہ سرگرمیاں ووٹ دلانے میں زیادہ مددگار ثابت ہورہی ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج معاملہ الٹ چکا ہے ۔ جرائم پیشہ افراد ہی عوام کے ہیرو بن کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ گجرات کے حالیہ اسمبلی چناو میں گجرات فسادات نے بی جے پی کو کامیابی دلائی ۔ ملک کی تاریخ کا یہ پہلا اسمبلی الیکشن ہوگا جس میں کسی پارٹی نے فسادات کے نام پر کامیابی حاصل کی۔ نریندر مودی۔امیت شاہ جوڑی نے اپنی آبائی ریاست میں 2002 گجرات فسادات کو کارنامے کے طور پر پیش کرتے ہوئے اکثریتی طبقہ کو متحد کیا۔ معصوم عوام کی موت پر انسانی ہمدردی کا جذبہ ہونے کے بجائے ہلاکتوں پر کھلے عام فخر کا اظہار کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائی گئی ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اگر فسادات نہ ہوتے تو ہندو غیر محفوظ ہوجاتے۔ الغرض گجرات فسادات کے تذکرہ نے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار عطا کردیا۔ ان دنوں گجرات فسادات میں نریندر مودی کے رول پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری نے سیاسی ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈاکیومنٹری کی نمائش کو روکنے کے اقدامات تو دوسری طرف جہدکاروں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے فلم کی نمائش پر اصرار نے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ جامعہ ملیہ ، جے این یو اور یونیورسٹی آف حیدرآباد میں ڈاکیومنٹری کی نمائش پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ طلبہ کے گروپس میں ٹکراؤ کے بعد گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔ گجرات فسادات کے بارے میں برطانوی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر تیار کردہ ڈاکیومنٹری میں کئی سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ۔ نریندر مودی کو فسادات کیلئے راست طور پر ذمہ دار قرار دیا گیا اور اس بات کا خلاصہ بھی ہوا کہ وشوا ہندو پریشد نے فسادات کی تیاری پہلے سے کرلی تھی اور گودھرا ٹرین حادثہ تو محض ایک بہانہ تھا ۔ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ اگر گودھرا نہ بھی ہوتا تو فسادات کا ہونا طئے تھا۔ گجرات میں فسادات کے نام پر بی جے پی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے بی بی سی ڈاکیومنٹری کی ریلیز کی ٹائمنگ پر شبہات کی گنجائش موجود ہے۔ کیا فلم کی ریلیز محض اتفاق ہے یا پھربی جے پی سے مل کر تیار کردہ سازش کا حصہ ہے ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فسادات کے 20 سال بعد ڈاکیومنٹری ریلیز اور وہ بھی لوک سبھا انتخابات سے عین قبل نریندر مودی کو گجرات فسادات کیلئے ذمہ دار کے طور پر پیش کرنا آخر کس منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ فسادات پر تحقیقات تو ظاہر ہے کہ کئی سال قبل مکمل ہوچکی ہوں گی لیکن ڈاکیومنٹری کے لئے جس ٹائمنگ کا انتخاب کیا گیا ، وہ کئی سوال کھڑے کرتا ہے ۔ کئی ایسا تو نہیں کہ مودی حکومت نے ہی یہ ڈاکیومنٹری ریلیز کرائی ہے تاکہ انتخابات سے قبل ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے۔ گجرات میں فسادات کو انتخابی موضوع بنانے سے جو فائدہ ہوا ، لہذا لوک سبھا چناؤ میں بی بی سی کی ڈاکیومنٹری بی جے پی کو ایک اہم انتخابی موضوع فراہم کرچکی ہے۔ ڈاکیومنٹری کے نام پر جس انداز میں سیاست کو گرمایا گیا دراصل بی جے پی کے پنکچر زدہ ٹائر میں ہوا بھرنے کا موقع ہاتھ آچکا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مودی کو گجرات کے قاتل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن ہندوتوا تنظیمیں مودی کو ہندوؤں کے مسیحا اور ہیرو کے طور پر پروجیکٹ کر رہی ہیں۔ مودی کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کرنے کی تیاری ہے تاکہ 2024 چناؤ کی جیت میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات پر سنگھ پریوار نے ایک سے زائد مرتبہ فخر کا اظہار کیا اور مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کو گجرات فسادات کے انعام کے طور پر دہلی کے تخت پر فائز کیا۔ ایسے میں بی بی سی ڈاکیومنٹری سے بی جے پی کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوسکتا ہے۔ فسادات کے 20 سال بعد ریلیز ہونے والی ڈاکیومنٹری میں کوئی نئی بات نہیں۔ نریندر مودی اور سنگھ پریوار کے رول کے بارے میں ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ایسے میں ڈاکیومنٹری کے ذریعہ دوبارہ پرانی باتوں کی یاد تازہ کی گئی ۔ بی بی سی 20 سال بعد جو باتیں کہہ رہا ہے، فسادات کے بعد ملک کی تحقیقاتی ایجنسیوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا لیکن عدالتوں نے ملزمین کو بری کردیا۔ سپریم کورٹ نے نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی ۔ عدالت عظمیٰ جب نریندر مودی کو بے قصور قرار دے تو ڈاکیومنٹری سے کیا حاصل ہوگا۔ دنیا بھر میں مودی کو گجرات فسادات کے لئے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ڈاکیومنٹری سے مودی کی شخصیت یا ان کے سیاسی کیریئر پر کوئی فرق نہیں پڑ ے گا۔ امریکہ نے مودی کو ویزا دینے سے انکار کرتے ہوئے دا خلہ پر پابندی عائد کردی تھی۔ ظاہر ہے کہ فسادات کیلئے مودی کو ذمہ دار مان کر ہی پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 20 سال بعد پرانی باتوں کو بی بی سی کی جانب سے پیش کرنا آخر کونسا کارنامہ ہے ؟ پابندی عائد کرنے والا امریکہ آج مودی کا دوست بن چکا ہے اور خود برطانوی حکومت نے بی سی سی ڈاکیومنٹری کے الزامات کو قبول نہیں کیا اور مودی کے بے قصور ہونے کی گواہی دی۔ ڈاکیومنٹری کے انکشافات سے زیادہ ملک اور خاص طور پر گجرات کے عوام حقائق سے واقف ہیں۔ ایسے میں بی بی سی ڈاکیومنٹری بے وقت کی راگنی اور سعی لاحاصل ثابت ہوگی۔ اپوزیشن اورعوام سے زیادہ خود مودی حکومت نے ڈاکیومنٹری کی زیادہ تشہیر کی تاکہ بدنامی کی آڑ میں ہمدردی کی لہر پیدا کی جائے ۔ ڈاکیو منٹری کو سوشیل میڈیا سے ہٹانے کیلئے جس انداز میں حکومت کی سطح پر اقدامات کئے گئے ، اس نے مزید تشہیر کا کام کیا ہے ۔ حکومت چاہتی یہی ہے کہ اپوزیشن اور مودی مخالفین ڈاکیومنٹری کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں تاکہ ہندو ووٹ بینک مستحکم اور متحد ہو۔ اگر ڈاکیومنٹری کی ریلیز مودی حکومت اور بی جے پی کی مرضی کے بغیر ہوئی ہے تو ملک کے وزیراعظم کی کردار کشی پر حکومت خاموش کیوں ہے۔ برطانوی حکومت سے سفارتی سطح پر کوئی احتجاج درج نہیں کرایا گیا۔ حتیٰ کہ بی بی سی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کسی بیرونی ادارے نے وزیراعظم کے وقار کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی، پھر بھی حکومت خاموش کیوں ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ڈاکیومنٹری سے بی جے پی کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوگا۔ الیکشن میں کامیابی کیلئے بی جے پی کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ سابق میں بی جے پی نے بارہا اس کا ثبوت دیا ہے۔ اپوزیشن باالخصوص مسلمانوں اور سیکولر طاقتوں کو بی جے پی کے جال میں پھنسنے کے بجائے ڈاکیومنٹری کی سیاست میں شمولیت سے گریز کرنا چاہئے ۔ ڈاکیومنٹری میں پہلے تو کوئی نئی بات نہیں ہے اور تشہیر سے نریندر مودی کو سزا ملنے والی بھی نہیں، لہذا منفی مہم کو ہمدردی میں تبدیل کرنے کے فن سے واقف بی جے پی کو صورتحال کے استحصال کا موقع نہیں دینا چاہئے ۔
راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اختتامی مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے۔ کنیا کماری سے شروع ہوئی یہ یاترا کسی رکاوٹ کے بغیر کشمیر تک پہنچ گئی ۔ راستہ میں اگرچہ بی جے پی اور مودی حکومت نے طرح طرح سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن راہول گاندھی نے ہار نہیں مانی۔ مودی حکومت کے 8 سالہ دور کی ناکامیوں اور فرقہ واریت کے خلاف شروع کی گئی اس یاترا کو عوام کی غیر معمولی تائید نے بی جے پی کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ یاترا کو روکنے کے لئے فرضی طور پر کورونا وباء کی لہر پیدا کی گئی ۔ وزیراعظم نے ہنگامی اجلاس طلب کیا جس کے بعد وزارت صحت نے راہول گاندھی کو بھارت جوڑو یاترا روک دینے کا مشورہ دیا ۔ بی جے پی نے پہلے ہی ملک کے اہم میڈیا پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے ، لہذا نیشنل میڈیا میں راہول گاندھی کا بلیک آؤٹ کیا گیا۔ نریندر مودی گھر سے باہر نکلیں تو تمام ٹی وی چیانلس انہیں لائیو پیش کرتے ہیں لیکن کانگریس کے ایک اہم قائد کی بھارت جوڑو یاترا ٹی وی چیانلس کی زینت نہیں بن سکی۔ راستہ میں جب کبھی راہول گاندھی نے میڈیا والوں سے بات چیت کی ، انہیں تلخ سوالات سے پریشان کرنے کی کوشش کی گئی۔ گاندھی خاندان کے یوراج کے لئے بھارت جوڑو یاترا انتہائی صبر آزما اور کٹھن ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ انہیں حالات سے مقابلہ کا تجربہ اور حوصلہ بھی ملا۔ ملک میں کانگریس کی موجودہ کمزور حالت کو بہتر بنانے میں بھارت جوڑو یاترا اہم رول ادا کرسکتی ہے ۔ راہول گاندھی نے آرام و آسائش کو ترک کرتے ہوئے عوام اور ملک کیلئے سڑک کا جو راستہ اختیار کیا ، ان کی یہ محنت ضرور رنگ لائے گی۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ شرارت ہے سیاست ہے کہ سازش کوئی
شاخ پر پھل آئے اس سے پہلے پتھر آگیا