یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے!!

   

سرفراز احمد قاسمی
گذشتہ چند دنوں سےپوری دنیا عجیب وغریب پریشانیوں میں مبتلاہے ہرطرف ہاہاکارہے،پورا پوراملک لاک ڈاؤن کےنام پر ٹھپ ہے لوگوں کی جان کےتحفظ کےلئےدنیابھرکی حکومتیں جدوجہد کررہی ہیں لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ انھیں مکمل طورپر کامیابی نہیں مل رہی اوراسی لیے وہ بےبس دکھائی دے رہے ہیں،ان میں بعض وہ ممالک کے حکمراں بھی ہیں جوخودکو ’سوپر پاور‘کہلاتے ہیں لیکن انھیں اب معلوم ہواکہ میرے علاوہ کوئی اور ہےجو حقیقی سوپر پاور ہےجوپوری دنیااورکائنات کے نظام کو چلارہاہے،جن کےسامنے انسانیت کے سارے منصوبےفیل اورساری ٹیکنا لوجی بیکار ہے،ہرطرف افراتفری کاعالم ہے،کیا امیر کیاغریب،کیا بڑا اورکیاچھوٹاسب کے اوپرایک خوف طاری ہے،حکومتیں اپنی اپنی بساط کےمطابق کوششیں توکررہی ہیں مگر ان چیزوں سے وہ خود مطمئن نہیں، ’کرونا وائرس‘کایہ قہر اپنی رفتارکے ساتھ جاری ہے لیکن اسکوروکنے کی تمام تر تدبیریں ابھی تک ناکام ہیں،اس جان لیوا وائرس سے چین سمیت اب تک لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں لیکن سائنس داں اب تک اسکا علاج اوراسکی دوا تک دریافت نہیں کرسکے،علاج کے نام پربس سب کچھ ابھی ہوامیں چل رہاہے،صاحب معارف القرآن اپنی شہرہ آفاق کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’موجودہ زمانے میں انسان کو راحت پہونچانے اوراسکی ہر تکلیف کو دور کرنے کےلیے کیسے کیسے آلات اور سامان ایجاد کیے گئے ہیں اور کئے جارہے ہیں کہ اب سے پچاس سال پہلے کے انسان کو انکا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتاتھا امراض کےعلاج کے لئے نئی نئی زود اثر دوائیں اور طرح طرح کے انجکشن،بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اور انکےلئے جابجا شفا خانوں کی بہتات کون نہیں جانتا کہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کا انسان ان سب سے محروم تھا لیکن مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان آلات و سامان سے محروم انسان اتنا بیمار اور کمزور نہ تھا،جتنا آج کا انسان بیماریوں کا شکارہے،اسی طرح آج عام وباؤں کے لئے طرح طرح کے ٹیکے موجود ہیں،حوادث سے انسان کو بچانے کےلئے آگ بجھانے والے انجن اور مصیبت کے وقت فوری اطلاع اور فوری امداد کے ذرائع و سامان کی فراوانی ہے لیکن جیسے جیسے یہ مادی سامان بڑھتا جاتاہے انسان حوادث اورآفات کا پہلے سے زیادہ شکار ہوتا جاتا ہے،وجہ اسکے سوااور کچھ نہیں کہ پچھلے دور میں خالق کائنات سے غفلت اور کھلی نافرمانی اتنی نہ تھی جتنی اب ہے،پچھلے لوگ سامان راحت کو خدا تعالی کا عطیہ سمجھ کر شکر گذاری کے ساتھ استعمال کرتے تھے اورآج کا انسان بغاوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہے اسلئے آلات اور سامان کی بہتات اسکو مصیبت سے نہیں بچا سکتی‘‘۔

چین،امریکہ،اٹلی فرانس اوراسپین وغیرہ میں آج کرونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں لوگ سجدوں میں گڑگڑاکر اس مصیبت سے نجات کی دعاء کررہے ہیں،کہیں ایوان میں قرآنی آیات کی تلاوت کی جارہی ہے اور کہیں پورے شہر کی گلیاں اذانوں کی آواز سے گونج رہی ہیں یہ صرف اسلیے ہورہاہے کہ اللہ تعالی کسی بھی طرح لوگوں کواس مہلک وبا سے نجات دیدے، کیایہ مقام عبرت نہیں ہے؟کیا ان حالات اور واقعات سے ہمیں عبرت حاصل نہیں کرنا چاہیے؟ افسوس اس بات کاہے کہ کچھ لوگ اسے تماشا اور مذاق سمجھ رہے ہیں ،یہ صرف بیماری اور وبا نہیں بلکہ اللہ کاعذاب ہے،دنیوی مصائب اور حوادث عموما انسانوں کے اعمال بد کانتیجہ اور آخرت کی سزاکا ہلکا سانمونہ ہوتے ہیں، اوراس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کیلئے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں کہ انکے ذریعے غافل انسانوں کو چونکایا جاتاہے،تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کاجائزہ لیکر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائیں۔ایک جگہ قرآن میں ہےکہ ’’اورہم لوگوں کو تھوڑاساعذاب قریب دنیا میں چکھا دیتے ہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ اپنی غفلت اور برائیوں سے باز آجائیں‘‘۔ اور ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’قسم ہے اس ذات کی جسکے قبضے میں میری جان ہےکہ کسی انسان کو جوکسی لکڑی سے معمولی خراش لگتی ہے یاقدم کو کہیں لغزش ہوجاتی ہےیا کسی رگ میں خلش ہوجاتی ہے یہ سب کسی گناہ کا اثر ہوتاہے اور جو گناہ اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں وہ بہت ہیں‘‘۔

اللہ تعالی ہرچیز پرقادر ہےوہ اس پربھی قادر ہے کہ کوئی عذاب، کوئی مصیبت اوربڑی سے بڑی آفت کوٹال بھی سکتاہے اسی طرح اسکواس پرقدرت حاصل ہےکہ جب کسی فردیاجماعت کو اسکی سرکشی اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو ہرقسم کاعذاب اس کیلئے آسان اورسہل ہے۔احادیث شریفہ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی دنیا میں مختلف طریقے سے اپناعذاب نازل کرتارہاہے کبھی کسی بیماری کی شکل میں اورکبھی اورچیز کی شکل میں،بخاری شریف میں ہے کہ ’’اس بیماری (طاعون)کے ذریعے اللہ تعالی نے تم سے پہلی قوموں میں عذاب نازل فرمایاہے سوجب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ کوئی وبائی مرض پھیل رہاہے تووہاں نہ جاؤ اور اگرکسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اورتم وہاں موجود ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو ‘‘(بخاری ومسلم) علماء نے لکھا ہے کہ جن آفات ومصائب کو گناہوں کےسبب سے قراردیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو پوری دنیا پر یاپورے شہر یاپوری بستی پر عام ہوجائیں،ایسے مصائب وآفات کاسبب عموما لوگوں میں گناہوں کی کثرت خصوصا علانیہ گناہ کرنا ہی ہوتاہے۔
موجودہ ’کروناوائرس جسکی لپیٹ میں آج پوری دنیا ہے یہ ایک بلا اور مصیبت ہی نہیں بلکہ بھیانک عذاب ہےاور جن جگہوں پر عذاب نازل ہوتاہے اس سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہئے،اوراللہ کی جانب کثرت سے رجوع کااہتمام،توبہ استغفار کےعلاوہ صدقہ و خیرات کی کثرت کرنی چاہیے،احتیاطی تدابیرپرسنجیدگی سے عمل آوری کرتے ہوئے اسکورفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،قرآن کریم میں ایسی بہت سی بستیوں کاذکر ہے جنکوعذاب الہی نے نیست و نابود کردیا رسول اکرم ﷺ جب ان مقامات سے گذرتے تو آپ ﷺ کے اوپر ہیبت حق کا ایک خاص حال ہوتاتھا ، سرکار دوعالم ﷺ کے اس عمل نے ملت اسلامیہ کیلئے یہ سنت قائم کردی کہ جن مقامات پر اللہ کا عذاب آیا ہے انکو تماشا گاہ بنانا بڑی قساوت قلبی اور دلیری کی بات ہےبلکہ ان سے عبرت حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ایسی جگہ کو دیکھ کر،سن کر اور وہاں پہنچ کر اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا استحضار اور اسکے عذاب کا خوف دلوں پر طاری ہونا چاہیے۔اللہ تعالی ہم سب کی اس مہلک وبا سے حفاظت فرمائے۔آمین