یہ گنتی کے چند روز ہیں۔ پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے ۔

   

یہ گنتی کے چند روز ہیں۔ پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھ لے ۔ اور جو لوگ اسے بہت مشکل سے ادا کر سکیں ان کے ذمہ فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا۔ اور جو خوشی سے زیادہ نیکی کرے تو وہ اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور تمہارا روزہ رکھنا ہی بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم جانتے ہو۔ (سورۃ البقرہ ۱۸۴)
مریض اور مسافر کو اس حکم سے مستثنیٰ کر دیا۔ مریض سے مراد وہ شخص ہے کہ اگر روزہ رکھے تو اس کی ہلاکت یا اس کے مرض کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو اور سفر سے مراد احناف کے نزدیک روز کا سفر ہے جس کا اندازہ ۳۶کوس یا ۵۴میل ہے۔ خواہ آپ اتنی مسافت آج ایک گھنٹہ میں طے کر یں آپ کو افطار کی اجازت ہے۔ بیماری اور سفر سے جنتے روزے آپ نہ رکھ سکیں تو صحت یاب ہونے اور سفر سے واپس آنے پر ان کی قضا دینا ہوگی۔ مریض اور مسافر کو افطار کی اجازت ہے لیکن روزہ رکھنا افضل ہے ۔ حضور نبی کریم (ﷺ) نے سفر میں کبھی روزہ رکھا اور کبھی نہیں رکھا۔ لیکن سفر جہاد میں روزے کے افطار کا حکم ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور (ﷺ) نے صحابہ کرام کو حکم دیا :’’آج جنگ کا دن ہے روزے افطار کرو‘‘۔ اس آیت میں علماء تفسیر کا اختلاف ہے۔ اکثر کی رائے تو یہ ہے کہ ابتدا میں جب روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں کی آسانی کے پیش نظر یہ گنجائش رکھی گئی کہ اگر کوئی روزے نہ رکھے تو وہ فدیہ ادا کر دے۔ بعد میں جب لوگ روزے کی لذت وبرکت سے آشنا ہوگئے تو یہ رعایت واپس لے لی گئی۔ اور عام حکم دے دیا گیا۔ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ۔ نفاذ شریعت میں جس تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یہ قول اس کے عین مطابق ہے۔