2023ء : ہندوستانی سیاست کا اہم ترین سال ہوگا

   

کلیانی شنکر
سال 2022ء ختم ہوچکاہے اور نئے سال 2023ء کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ ایسے میں اس بات کو لے کر کافی فکرمندی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ نیا سال دنیا بالخصوص ہندوستان کیلئے کیسے ثابت ہوگا۔ فی الوقت یہ سوال گردش کررہا ہے کہ 2023ء میں کیا ہونے والا ہے؟ آیا آنے والا سال اچھا ہوگا یا برا؟اگر دیکھا جائے تو گزشتہ تین برسوں کے دوران د نیا کو ایک ایسی وباء کا سامنا کرنا پڑا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم بات کررہے ہیں کووڈ۔ 19 کی جس نے سارے عالم کو ایک طرح سے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ پیش قیاسیوں، پیشن گوئیوں اور علم نجوم سے تعلق رکھنے اور اس سے دلچسپی رکھنے والوں کو اُمید ہے کہ آئندہ سال بہتر ہی ہوگا۔ ان لوگوں کو توقع ہے کہ معیشت کی صحت بحال ہوگی۔ انہیں یہ بھی امید ہے کہ یوکرین میں جنگ جیسی صورتحال کا خاتمہ ہوگا لیکن مشہور و معروف فرانسیسی نجومی ناسٹرا ڈامس (Nostradamus)نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023ء میں یوکرین بحران اس قدر شدت اختیار کرے گا کہ وہ تیسری عالمی جنگ کا باعث بنے گا۔ ان کی پیشن گوئیوں کے مطابق دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں درجہ حرارت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جائے گا اور ایک نئے پوپ کی آمد کا دور دورہ ہوگا۔ امریکہ میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی۔ دنیا میں شہری بے چینی پھیل جائے گی۔ سائنسی تحقیق و جدوجہد کے بارے میں اس کی ایک اہم پیش گوئی کی ہے کہ انسانی مریخ پر قدم رکھے گا۔ ’’اِکنامک میگزین‘‘ نے نوٹ کیا ہے کہ عالمی سطح پر بے شمار چیلنجز پیش آئیں گے، مثال کے طور پر یوکرین میں جنگ شدت اختیار کرے گی، غذائی اشیاء اور فیول (پٹرول و ڈیزل) کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا، مہنگائی یا افراط زر کے خلاف عوامی برہمی بڑھے گی اور اس کے خلاف لڑائی میں تیزی آئے گی، قابل تجدید توانائی پر انحصار میں اضافہ ہوگا۔ مابعد کورونا وباء چین کا موقف کیا ہوگا، اس کا عالمی سطح پر مقام کیا ہوگا اور اس کی سمت کیا ہوگی، اس بارے میں غیریقینی کیفیت پائی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ آبادی کے معاملے میں ہندوستان ، چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا سوال ہے، ہندوستان 18 ویں G-20 سربراہ اجلاس کی صدارت کرے گا، سربراہان حکومتوں کا یہ اجلاس 9 اور 10 ستمبر 2023ء کو نئی دہلی میں منعقد ہوگا۔ ہندوستان چونکہ G-20 کا سربراہ ملک ہے۔ سربراہ اجلاس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے شہروں میں 200 سے زائد پروگرامس کا اہتمام کرے گا اور وزیراعظم نریندر مودی 2024ء کے عام انتخابات سے قبل ایک شاندار و عظیم الشان شو میں خود کو ایک عالمی لیڈر کے طور پر پیش کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر شاہ چارلس سوم کی تاجپوشی آئندہ سال کا بہت بڑا ایونٹ ہوگا جبکہ ہندوستان میں اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو سال 2023ء میں 9 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جو سیاسی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔ یہ ایسے انتخابات ہیں جو کئی قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی قسمت کا فیصلہ کردیں گے۔ ان میں کانگریس، بی جے پی اور دوسری علاقائی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر کانگریس اور راہول گاندھی کیلئے اپنا انتخابات کی کافی اہمیت ہے۔ راہول گاندھی نے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعہ کانگریس کارکنوں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کیا۔ یہ اسمبلی انتخابات راہول گاندھی کیلئے یقینا ایک آزمائش ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 9 ریاستوں میں آئندہ 12 ماہ کے دوران اسمبلی انتخابات منعقد ہوں گے۔ ان ریاستوں میں میگھالیہ، تریپورہ اور ناگالینڈ (فروری میں ہوں گے) جبکہ مئی 2023ء میں کرناٹک، نومبر میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورم، تلنگانہ اور راجستھان جیسی ریاستوں میں انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا۔ مودی حکومت، جموں و کشمیر میں بھی انتخابات کرواسکتی ہے اور مذکورہ تمام ریاستوں کے انتخابات 2024ء کے عام انتخابات کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، ان میں کون جیتے گا، کون ہارے گا، اس کا رائے دہندوں اور پارٹی ورکروں کے حوصلوں پر بہت اثر پڑے گا۔ ایک طرف حکمراں بی جے پی اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور اپنے دائرے کو وسعت دینے کی ہر ممکنہ کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کیلئے غیربی جے پی ، سیاسی جماعتوں کی کامیابی کو یقینی بنانا بہت اہم ہے تاکہ بی جے پی کی انتخابی کامیابیوں کے سلسلے کو روکا جاسکے۔ اگر دیکھا جائے تو راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور کانگریس کا راست مقابلہ ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہوگا، جنوبی ہند کی اہم ریاست تلنگانہ میں بھی ٹی آر ایس، کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ تریپورہ میں بھی بی جے پی کانگریس اور بائیں بازو اتحاد کے درمیان سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ ان ریاستوں میں سے کرناٹک اور مدھیہ پردیش، بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے سیاسی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہی معاملہ چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی ریاستوں کا ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کا اقتدار ہے۔ فی الوقت بی جے پی کی نظریں تلنگانہ پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ ہر حال میں چندر شیکھر راؤ کی بی آر ایس (ٹی آر ایس) سے تلنگانہ چھیننے کی خواہاں ہے۔ کے سی آر خود کو مودی کے چیلنجر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ وہ ریاست تلنگانہ میں اپنی پارٹی کی امکانی کامیابی کو لے کر کافی پراعتماد ہیں، کیونکہ ریاست کے 40% سے زیادہ ووٹ ان کی پارٹی کو حاصل ہوئے ہیں۔ اس طرح تلنگانہ میں کے سی آر اور ان کی پارٹی کا موقف بہت مستحکم ہے۔ کے سی آر ریاست میں انتخابی کامیابی کی ہٹ ٹرک کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ انہوں نے ریاست میں تلگو دیشم اور کانگریس کا صفایا کردیا ہے، لیکن ان کیلئے مایوسی کی بات یہ ہے کہ تلگو دیشم اور کانگریس کے صفایا سے اہم اپوزیشن کی جو جگہ پیدا ہوئی بی جے پی اس جگہ کو پر کرنے والی دعویدار جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ فی الوقت بی جے پی نے ساری توجہ کرناٹک پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس کیلئے یہ ریاست اس لئے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ جنوبی ہند کی واحد ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی کو اقتدار ملا ہے۔ اب وہاں کانگریس۔ جے ڈی ایس اتحاد کو بی جے پی سے حکومت چھیننے کا ایک موقع ملا ہے، جہاں تک شمال مشرقی ریاستوں کا سوال ہے۔ 2023ء میں تریپورہ، میگھالیہ، ناگالینڈ اور میزورم جیسی شمال مشرقی ریاستوںمیں انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی سردست تریپورہ میں زیراقتدار ہے۔ میگھالیہ اور ناگالینڈ میں بی جے پی کی حمایت یافتہ حکومتیں ہیں۔ میزو نیشنل فرنٹ میزورم میں حکومت کررہی ہے۔ ان ریاستوں میں کانگریس کا تقریباً صفایا ہوگیا ہے۔ ایسے میں کیا کانگریس اپنی سیاسی طاقت کا احیاء کرے گی؟ آیا راہول گاندھی ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھریں گے؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں، ویسے بھی ہماچل پردیش میں کانگریس کی کامیابی نے کانگریس کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ اس نے کانگریس کیلئے اپوزیشن کو متحد کرنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اپوزیشن قائدین یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اگر وہ متحد نہیں ہوں گے تو پھر مودی تیسری میعاد کیلئے بھی منتخب ہوں گے۔ اپوزیشن متحد ہوکر اس معاہدہ پر پہنچے گی کہ انتخابات کے بعد عہدہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ویسے بھی اس عہدہ کے کم از کم نصف درجن دعویدار ہیں جن میں ممتا بنرجی، کے سی آر اور اروند کجریوال نمایاں ہیں۔ ہاں نئی شکل کے ساتھ کووڈ کی واپسی ایک نیا خطرہ ہے۔ ہندوستان نے ایک ارب سے زیادہ اپنی آبادی کو ٹیکے دے کر وباء پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے باوجود ہنوز حکومت کو کسی بھی نئے وائرس پر سخت نظر رکھنی ہوگی۔ معاشی محاذ پر وزیر فینانس نرملا سیتا رامن یکم فروری کو مرکزی بجٹ پیش کریں گی۔ مہنگائی اور بڑھتی قیمتیں دو سلگتے مسائل ہیں۔ عالمی بینک نے ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار کی شرح میں بہتری کی توقع ظاہر کی ہے لیکن افراطِ زر کی شرح 7% رہے گی۔ بحیثیت مجموعی تمام شعبوں میں 2023ء ہندوستان میں بہتر امکانات لائے گا۔٭