400 پار سے جادوئی ہندسہ تک

   

یقین ہوگیا جب میری موت کا سب کو
مرے علاج کا سب انتظام کرنے لگے
پارلیمانی انتخابات کیلئے مہم کے دوران سیاسی جماعتوں اور قائدین کے بدلتے تیور صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر کسی بھی لیڈر یا امیدوار کے تیور میں اپنے حلقہ میں پائے جانے والے رجحان کے مطابق تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ جب کبھی کسی امیدوار کو صورتحال اپنے حق میں دکھائی دیتی ہے تو وہ تاناشاہی کے انداز میں بات کرنے لگتا ہے اور وہیں جب رائے دہندوں میں اس کے تعلق سے مخالفت پیدا ہوجاتی ہے تو اس کا لب و لہجہ ہی تبدیل ہوجاتا ہے ۔ وہ عوام اور دوسروں کے ساتھ انتہائی نرمی سے بات کرنے لگ جاتا ہے ۔ کچھ یہی حال بی جے پی اور خود ملک کے وزیرا عظم نریندرمودی کا دکھائی دیتا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کیلئے مہم کے آغاز سے قبل بی جے پی اور اس کے تلوے چاٹنے والے اینکرس اور دیگر قائدین اب کی بار 400 پار کا نعرہ دینے لگے تھے ۔ اس کا واحد مقصد عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا اور بی جے پی کی کامیابی کا ایک فرضی تاثر پیدا کرنا تھا ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور خود نریندر مودی کو صورتحال کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بی جے پی قائدین کے تیور بدل گئے ہیں بلکہ خود وزیر اعظم اب ہندو ۔ مسلم کی سیاست پر اتر آئے ہیں ۔جس طرح کانگریس نے عوام میںدستور کی تبدیلی کے اندیشے پیدا کردئے تھے اب اسی طرح نریندر مودی خواتین کے منگل سوتر پر تک سیاست کرنے لگے ہیں ۔وہ مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور در انداز تک قرار دینے سے گریز نہیںکر رہے ہیں۔ ترقی اور معیشت کے استحکام کا تذکرہ کہیں فراموش کردیا گیا ہے ۔ اب صرف کانگریس کی واپسی سے عوام کو خوفزدہ کرنے کے منصوبہ کو اختیار کرلیا گیا ہے اور یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ اب کی بار 400 پار کو فراموش کرتے ہوئے خود وزیر اعظم نے علیگڈھ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ بی جے پی از خود جادوئی ہندسہ تک پہونچ جائے گی ۔ اس طرح نریندر مودی نے عملا یہ اعتراف کرلیا ہے کہ اب کی بار 400 پار کا جملہ پارٹی کارکنوں اور ملک کے عوام میں کسی طرح کا جوش و خروش پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔
بی جے پی اپنے دستیاب وسائل اور چاپلوس میڈیا اینکرس ‘ سیاسی و کارپوریٹ گھرانوں کے چینلس اور اپنے پے رول پر موجود ٹرولس کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں اکثر و بیشتر ایک تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ وہ ہمیشہ ہی ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کچھ بے ہنگم باتیں عوام کے ذہنوں میں ڈالنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ انتخابات کے موقع پر ایسی کوششیں اور حرکتیں تیز ہوجاتی ہیں۔ تاہم اب کی بار 400 پار کا نعرہ جتنا غیر حقیقت پسندانہ تھا اتنا ہی جلدی عوام کو سمجھ میں بھی آگیا ہے ۔ خود بی جے پی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ 400 پار کا نعرہ بھی ایک انتخابی جملہ تھا جو ہر ایک کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے جیسا استعمال کیا گیا تھا ۔ اس نعرہ کو خود بی جے پی کے خلاف اس کے مخالفین نے کامیاب انداز میں استعمال کیا ہے ۔ پہلے مرحلہ میں 102 نشستوں پر ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ ان حلقوں میں اپوزیشن انڈیا اتحاد نے عوام میں یہ تاثر کامیابی سے پیدا کردیا کہ بی جے پی کو اگر اس قدر اکثریت ملتی ہے تو دستور کو تبدیل کردیا جائیگا اور پسماند ہ برادری کے تحفظات خطرہ میں پڑ جائیں گے ۔اس صورتحال نے بی جے پی کو متفکر کردیا تھا ۔ اسے خود بھی یقین ہو چلا ہے کہ اسے اہم ریاستوں میں کئی نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی اور خود وزیر اعظم نے خواتین میں مسلمانوں کا خوف پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے باوجود وہ 400 پار کا نعرہ خود ہی فراموش کرچکے ہیں۔
جس طرح سے راجستھان میں انہوں نے اپنے عہدہ کے وقار کو پامال کرنے والی تقریر کی تھی اس کو اب وہ فخریہ انداز میں دوسرے مقامات پر بھی پیش کر رہے ہیں اور اسے ایک کارنامہ سمجھ رہے ہیں جو منفی سوچ کا عکاس ہے ۔ تاہم اس سب کے باوجود وہ خود یہ کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی جادوئی ہندسہ تک خود پہونچ جائے گی ۔ یہ در اصل بی جے پی کے نعرہ سے 130 نشستیں کم کی بات ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی حالت کے پتلی ہونے کا اندازہ ہوچکا ہے اور وہ سیدھے اعلی ترین سطح سے فرقہ وارایت پر اتر آئی ہے اور اب عوام خاص طور پر خواتین کو خوفزدہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے ۔