G-20 اور مودی حکومت کے دعوے

   

پی چدمبرم ، سابق مرکزی وزیر داخلہ

وزیراعظم نریندر مودی ایک مکمل شومین ہیں۔ G-20 اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں وہ بڑے پر اعتماد اور پر یقین دکھائی دے رہے تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انہیں خود پر بہت زیادہ یقین ہو، ویسے بھی وزیراعظم نریندر مودی کے یہاں ایک ٹیم ہے جو بڑی ا حتیاط سے ان (مودی) کیلئے وہ نوٹس تیار کرتی ہے جس کا استعمال مودی جی اپنی تقاریر میں کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر مودی جی کی ٹیم انہیں اس بات کیلئے تیار کرتی ہے کہ وہ کیا بولیں اور کیا نہ بولیس ۔ کیا کہیں کیا نہ کہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان سے کوئی غلط لفظ ادا نہ ہوجائے (جیسا کہ مختلف موقعوں پر دیکھا اور سنا گیا ہے) مودی جی کی سب سے بری خوبی یہ ہے کہ عکس ہندی کے دوران کیمرہ کے فریم میں اپنے کسی وزیر کو جگہ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے کابینی ر فقاء کو کیمرہ کے فریم میں ایک انچ جگہ دیئے بغیر اس (فریم) پر پوری طرح قبضہ کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ G-20 اجلاس کے دوران ہمارے عزت ماب وزیراعظم نے اپنی مرضی و منشاء کے عین مطابق میڈیا کو دور رکھا ۔ انہوں نے نہ صرف خود میڈیا سے فاصلہ برقرار رکھا بلکہ ان کی حکومت نے اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ امریکی صدر جوبائیڈن ان سے بات کرنے ان سے سوالات کرنے کیلئے بے چین صحافیوں سے کوئی سوال نہ لیں۔ مودی جی کی اس روش سے امریکی وفد اس قدر مایوس ہوا کہ ان لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ مسٹر جوبائیڈن کا اگلا پڑاؤ ویتنام ہوگا اور وہاں وہ G-20 سے متعلق سوالات کے جوابات دیں گے۔
اسٹائل (چمک دمک) G-20 اجلاس کیلئے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی چنانچہ سب سے پہلے سڑ کوں پر سڑکیں بچھائی گئیں تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ دہلی کی چمچاتی سڑکوں کو چمکایا گیا ، وہیں دہلی بھر میں درخت ، پودے ، گھاس پھوس ، روشنی بکھیرتے برقی قمقمے (اور مزید روشنیاں )، مجسمے ، پوٹریٹس اور بل بورڈس دکھائی دینے لگے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تمام کے تمام اچانک نمودار ہوئے ہوں۔ غرض دہلی کو بڑے پیمانہ پر سجایا سنوارا گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں اس قدر سجاوٹ کی گئی کہ یہ سجاوٹ ایک شہر کیلئے بہت زیادہ تھی ۔ واضح رہے کہ G-20 کی صدارت اب برازیل کے حوالے کی گئی اور ہم (حکومت ہند) آئندہ برس برازیل کے دارالحکومت ریوڈی جنیرو میں ہونے والی G-20 اجلاس کیلئے کچھ غیر مستعملہ مواد پیش کرسکتے ہیں۔ G-20 اجلاس میں ایک بات جو سب نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ سارے شہر میں ہر طرف ایک ہی چہرہ دکھائی دے رہا تھا ۔ یہاں تک مہمان رہنماوں کو کسی بھی بل بورڈ میں تھوڑی سی جگہ کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہر طرف مودی جی کی تصاویر پر مبنی بل بورڈس آویزاں کئے گئے تھے۔ تمام مذاکرات و مکالموں کی طرح دہلی ڈکلیریشن (دہلی اعلامیہ) میں بلند بانگ دعوؤں کی طرح کچھ بلند بانگ اعلانات تھے ۔ مثال کے طور پر ہم تاریخ کے ایک متعین و مقرر لمحے پر ملاقات کرتے ہیں جہاں ہم اب جو فیصلے لیتے ہیں وہ ہمارے عوام اور ہمارے سیارہ یعنی کرہ ارض کے مستقبل کا تعین کرے گا ۔ مجھے یقین ہے کہ G-20 کے گزشتہ سربراہی اجلاس میں ایسے ہی الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگلے سربراہ اجلاس میں بھی اس طرح کے الفاظ استعمال ہوں گے۔
عالمی تنظیم تجارت WTO کے ساتھ مضبوط وابستگی کا اظہار کرنا سب کیلئے سازگار تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول کو فروغ دینا اور آئندہ سال یعنی 2024 ء تک تمام رکن ممالک کیلئے قابل رسائی تنازعات کے تصفیہ کے ایک مکمل اور اچھی طرح سے کام کرنے والے نظام پر عمل کرنے کا عہد بھی کیا گیا ۔ یہ عہد 2019 ء میں ٹرمپ کی برہمی کے بعد ایک بہترین عہد ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ عالمی تنظیم تجارت کی ڈائرکٹر نگوری اکونجو کی موجودگی کے نتیجہ میں اس عہد کو یقینی بنایا گیا۔
لیبر فورس کی شرکت میں پائے جانے والے فرق کو کم کرنے روزگار کے مواقع تک جامع رسائی کو فعال بنانے صنفی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو ختم کرنے صنفی بنیاد پر تشدد بشمول جنسی تشدد ، ایذا رسانی، امتیازی سلوک اور خواتین کے خلاف بدسلوکی کو ختم کرنے ۔ کام کے مقامات کو محفوظ بنانے کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا ۔ اس کے علاوہ صنفی دقیانوسی تصورات اور تعصب جو صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہیں ۔ ان کے انسداد اور خاتمہ کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کی اس کی تمام شکلوں اور اقسام میں مذمت کرنا، بشمول زینو فوبیا نسل پرستی اور عدم برداشت و عدم تحمل کی دیگر اقسام کی بنیاد پر یا مذہب و عقیدہ کے نام پر اور امن کیلئے تمام مذاہب کی وابستگی کو تسلیم کرنا بھی G-20 کا کمال ہے۔
آپ کو بتادیں 34 صفحات پر مشتمل 83 پیراگراف کا اعلامیہ گزشتہ نتائج اور جاری اقدامات کی بڑے پیمانے پر توثیق تھا ۔ یہاں اس بات کا تذ کرہ ضروری ہوگا کہ G-20 کے بارے میں ہندوستان نے بلند بانگ دعویٰ کئے اور میڈیا نے پوری وفاداری کے ساتھ رپورٹنگ بھی کی اور بتایا کہ ہندوستان نے G-20 ملکوں میں ایک ممتاز حیثیت حاصل کرلی ہے اور 2023 ء میں ہندوستان کو G-20 کی صدارت کا ملنا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ ممتاز حیثیت اور درجہ اس کی غیر معمولی اقتصادی کارکردگی اور وزیراعظم کے باعث ممکن ہوسکا حالانکہ ہر کوئی یہ بخوبی جانتا ہے کہ G-20 کی صدارت مسابقتی بولی کے ذریعہ جیتنے والی پوسٹ کے ذریعہ نہیں جیتی جاتی بلکہ باری باری رکن ممالک کے حوالے کی جاتی ہے۔ 2024 ء میں برازیل 2025 ء میں جنوبی افریقہ G-20 کا صدر ہوگا اور 2026 ء میں امریکہ کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس کے علاوہ گزشتہ 9 برسوں میں ہندوستانی معیشت کی کارکردگی غیر معمولی نہیں رہی اور ہما رے ملک کی شرح نمو کا اوسط 5.7 فیصد رہا۔ بہرحال حکومت کے دعوے تو بڑے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔موجودہ حالات میں ہندوستان G-20 کے سرفہرست مقام کے قریب بھی نظر نہیں آتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہریوں کی اوسط فی کس آمدنی ، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس، لیبر فورسس کی شرکت سے متعلق شرح (LFPR) ، بھوک کے عالمی عشاریوں اور بعض دیگر پیمانوں میں ہمارا ملک نچلی سطح پر ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر ہم سنجیدگی سے اپنی راہ کا تعین کریں تو G-20 ملکوں میں سرفہرست ہوسکتے ہیں۔