کانگریس نے 224اسمبلی حلقوں میں سے صرف 14مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہیں۔ ان میں بیشتر سینئر قائدین ہیں جو اپنے بل بوتے پر جیت حاصل کرسکتے ہیں۔
بنگلورو۔کرناٹک میں مسلمان جو تعداد کے لحاظ سے ایک اہم گروپ پر مشتمل ہیں سیاسی پولرائزشن کی شدت کا احساس کررہے ہیں۔
مذکورہ کمیونٹی جس نے آزادی کے بعد سے مسلسل کانگریس کی حمایت کی ہے کہ اب اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لئے دوسری ابھرتی سیاسی جماعتوں کی طرف اپنا رخ کررہے ہیں۔
بی جے پی حکومت کے ماتحت ریاست میں حجاب بحران منظرعام پر جس کے سبب عالمی توجہہ بھی مبذول ہوئی اور اسکول اورپری یونیورسٹی سطح پر کمیونٹی تقسیم ہوگئی۔
اس کے بعد منادر کے احاطوں میں مسلم تاجرین کے بائیکاٹ اور ہلاکتوں کے بدلے کے اعلان نے ان کے ذہنیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہندوستان کی 75ویں یوم آزادی کے موقع پر ویر ساوکر کا فلکس لگانے والے ہندو کارکنوں کو چاقو مارنے والے اور منگلورو میں کوکر بلاسٹ کو انجام دینے والے کچھ شرپسند عناصر کی کاروائیوں کا خمیازہ سارے کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
تشدد کے واقعات کی جانچ کرنے والی کرناٹک پولیس اور قومی تحقیقاتی ایجنسی نے انہیں گھیرے میں لے لیاہے۔بی جے پی حکومت کے سربراہ چیف منسٹر بسوراج بومائی نے ہندو متاثرین جو بی جے پی کے کارکنان بھی تھے کے گھروں کا جاکر مسلمانوں کو تنہا ہونے کے احساس میں تقویت پیدا کردی ہے اور بومائی نے مسلمان متاثرین کے گھروں تک جانا بھی گوارا نہیں کیاہے۔
یہاں تک اپوزیشن کی جانب سے اس پر بڑے پیمانے کا آہ وبکا کرنے کام کیاجاتا ہے‘ بی جے پی حکومت نے اس پر وضاحت بھی دینا مناسب نہیں سمجھا۔کرناٹک کانگریس صدر ڈی کے شیو اکمار نے کہاکہ مسلم کمیونٹی اس نفرت کی حقدار نہیں ہے‘ انہوں نے ملک میں مساوی تعاون کیاہے۔
تاہم اسمبلی انتخابات کے لئے لہجے طے کیاگیاتھا اور کانگریس نے بھی چارہ اٹھایاتھا۔ ہندو امیدواروں کو مسلمانوں پر ترجیح دی گئی جبکہ ووٹوں کے پولرائزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹکٹ الاٹ کی گئیں جس سے جیت کے امکانات متاثر ہوئے۔
ایک سینئر صحافی اور مصنف محمد حنیف نے ائی اے این ایس کو یہ بتایاکہ مسلمانوں نے کانگریس پارٹی پر آنکھ بند کرنے کی بھروسہ کرنا چھوڑدیاہے۔ انہوں نے کہاکہ ”انہوں نے کانگریس سے انتخابات سے قبل مطالبہ کیاتھاکہ224سیٹوں میں سے کم ازکم30مسلمانوں کو ٹکٹ دیں۔
کمیونئی کے قائدین کو امید تھی کہ کم ازکم 22مسلمانوں کو ٹکٹ دیاجائے گا۔ حقیقت میں کانگریس کو بی جے پی کاخوف ہے“۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان آنکھیں بند کرکے دوسرے کمیونٹیوں اور مذاہب کے کانگریسی امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔
تاہم دوسرے کانگریس کے امیدواروں کو جو مسلمان ہیں ووٹ نہیں دیتے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے وہ (مسلمان) وہاں متبادل موقع دیکھ رہی ہیں جہاں پر کانگریس تیسرے مقام پر ائی ہے۔حنیف نے کہاکہ اس طرح کا تبادلہ خیال مذہبی قائدین کے درمیان میں پیش آیاہے اورایک فیصلہ لیاگیاہے۔
چن پٹن او ردرشالی جیسے حلقوں میں مسلمانوں کے لئے کانگریس سے بہتر موقع جے ڈی(ایس) ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ جینوں او ربدھسٹ او ر دیگر 20فیصد پر مشتمل اقلیتی طبقات کے لئے بھی جو بی جے پی کابینہ میں کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔کانگریس نے 224اسمبلی حلقوں میں سے صرف 14مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہیں۔ ان میں بیشتر سینئر قائدین ہیں جو اپنے بل بوتے پر جیت حاصل کرسکتے ہیں۔
پارٹی نے شیگاؤں حلقہ سے چیف منسٹربسوراج بومائی کے خلاف یاسر احمد خان پٹھان کو میدان میں اتارا ہے۔ کرناٹک کانگریس لیڈر تنویر سیٹھ میسور میں نرسمہا راج کی نمائندگی کررہے ہیں۔
یو ٹی قدیر منگلور و (اولال) دکشنا کنڈا سے امیدوار ہیں۔ ضمیر احمد جو بنگلورو کے چامراج پیٹ سے مسلسل جیت حاصل کررہے ہیں ایک عوامی لیڈران میں سے ہے جس نے مذہبی رکاوٹوں کو تور تک تمام طبقات تک رسائی کی ہے۔
رضوان احمد ارشد شیواجی نگر سے امیدوار ہیں جس کی شبہہ صاف ہے اور وہ ایک عوامی لیڈر ہیں۔بی جے پی نے ایک بھی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایاہے۔ جے ڈی (ایس) نے پارٹی کاریاستی صدر سی ایم ابراہیم کو بنایاہے۔
اس مرتبہ اس پارٹی نے 23مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے۔ درایں اثناء‘ ریاست میں تمام تفرقہ انگیزباتوں او رتناؤ کے درمیان‘تبسم شیخ ہیومنٹیز اسٹریم میں پی یوسی 11(بارہویں جماعت) میں ٹاپر کے طور پر ابھرنے کی خبر نے ریاست بھر میں مثبت رحجان کو فروغ دیاہے۔